گھر کی قدر

 

گھر کی قدر

 

گھر کی قدر مجھے میرے احساس نے ماردیاتھا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ زندگی کی کوئی خوشی میرے پاس نہیں تھی۔ پریشان ہو کر رہ گیا تھا۔ دولت تو بہت دور کی بات ہے، کوئی گیسو کسی آنچل کا سہارا بھی نہیں تھا۔ اس ناامیدی کی کیفیت میں اپنے ایک جاننے والے اطہر بھائی سے ملاقات ہوگئی ۔ وہ ایسے آدمی تھے جن کو میں نے ہمیشہ خوش ہی دیکھا تھا۔ میں نے جب ان سے ان کی ہر دم خوشی کا راز پوچھا تو انہوں نے جواب دیا بہت آسان تھا۔ میاں ایک شعر شن لو۔اسی میں راز چھپا ہوا ہے۔ چلیں سنا دیں ۔ میں نے بے دلی سے کہا۔ خوشی کی جستجو دراصل غم ہے ۔ خوشی کو چھوڑ دے غم بھی نہ ہوگا ۔‘ انہوں نے شعر سنا دیا۔ شعر واقعی بہت اچھا تھا اور ایک فارمولہ بتا دیا گیا تھا کہ اس پرعمل کر جاؤ تو سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔ اطہر بھائی۔ شعر تو بہت اچھا ہے۔ میں نے تعریف کی۔ میاں فارمولہ بھی اچھا ہے ۔ تم ابھی سے اس پر عمل کرو۔ ایک ہفتے کے بعد آ کر بتاؤ۔ کیا ہوا؟ میں اطہر بھائی کے پاس ایک خاص کام سے گیا تھا۔ اس دن میری جیب میں کچھ بھی نہیں تھا۔ میں نے یہ سوچا تھا کہ میں اطہر صاحب سے ایک ہزار روپے لے لوں گا ۔اس کے بعد وہیں سےٹیکسی کر کے راستے سے کھانے پینے کی چیز یں لے کر گھر واپس آ جاؤں گا۔ کم از کم دو دنوں تیک کا خرچ چل ہی جاۓ گا۔ گھر میں کوئی نہیں تھا۔ ابھی تک شادی نہیں ہوسکی تھی۔ اب یہ بتاؤ کہ اگر ہزار روپے مل جا ئیں تو تم خوش ہوجاؤ گے؟ظاہر ہے اطہر بھائی ۔اس سے کئی کام نکل جائیں گے- تو بس میں تمہیں پیسے نہیں دے رہا۔ تم کو ابھی سے اس فارمولے پر عمل کرنا ہے ۔ دیکھ لینا تم نے اس شعر کو اپنے ذہن میں اتارلیا تو پھر تمہیں کوئی غم بھی نہیں ہوگا۔“ میں ان سے پیسے لیے بغیر اس شعر کی سوغات لے کر واپس آ گیا۔ گھر آ کر مجھے نفیسہ کا خیال آیا۔ میں نے نفیسہ نام کی ایک لڑکی سے محبت کی تھی جو یہ چاہتی تھی کہ میں اس کے باپ سے جا کر ملوں۔ میں نے اسے ایک شعر بھی سنایا تھا۔ میری حیات کی راہوں میں پیچ وخم ہیں بہت می خوب سوچ لے پہلے جو میرے ساتھ چلے نفیسہ کے باپ سے ملاقات کو میں ابھی تک ٹال رہا تھا لیکن اب ان سے ملنا ضروری ہو گیا تھا۔ وہ ایک اعلیٰ سرکاری آفیسر تھے۔ ان کے ذریعے کوئی جاب بھی ہوسکتی میں نے نفیسہ کو فون کر کے کہا۔ ”میرا خیال ہے کہ میں تمہارے ابو سے جا کر مل ہی لوں۔ ہاں ہاں چلے جاؤ۔ اس نے کہا۔” میں نے ابو سےبات کی ہوئی ہے۔بس ان کو تمہارے آنے کا انتظار ہے۔ وہ تمہارا انتظار ہی کر رہے ہیں ۔ تم ان سے جا کر مل لو ۔“ نفیسہ کے والد ایک اعلی سرکاری عہدے دار تھے۔ بہت دھاک تھی ان کی ۔ ان کے پاس جاتے ہوۓ جھجک ی ہورہی تھی لیکن نفیسہ نے مجبور کر کے مجھے ان کے دفتر بھیج دیا۔ اس نے اپنے ابو سے میرے بارے میں بات کر لی تھی۔ میں دوسرے دن بہترین ڈریسنگ کر کے ان کے پاس پہنچ گیا۔ وہ اپنی پوری شان کے ساتھ اپنے کمرے میں ہی تھے۔آؤ صاحب زادے، آؤ۔نفیسہ نے مجھے تمہارے بارے میں بتا دیا تھا۔ جی جناب ۔ میں اس سے زیادہ کیا کہ سکتا تھا۔ بیٹھ جاؤ ۔ انہوں نے سامنے والی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ میں مؤدب ہو کر سامنے بیٹھ گیا۔ زندگی میں پہلی بارایسا انٹرویو دے رہا تھا۔ تم خدانخواستہ میری بیٹی سے عشق تو نہیں کرنے لگے ہو؟ انہوں نے ایک ایسا سوال کیا کہ میں چکرا کر رہ گیا۔ میرا خیال ہے کہ کسی بھی باپ نے براہ راست ایسا سوال ہونے والے داماد سے بھی نہیں کیا ہوگا۔ شرمانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں یا نہ میں جواب دو۔ عشق کیا جناب ، بس نفیسہ مجھے بہت پسند ہے ۔ میں اسے ہر حال میں خوش رکھوں گا ۔ میرا خیال ہے کہ ابھی ہماری گفتگو اتنی آگے نہیں بڑھی کہ تم خوش رکھنے یا نہ رکھنے کی بات کرو۔ انہوں نے کہا۔ میں ایک بار پھر چکرا کر رہ گیا۔ عجیب بے دھڑک انسان تھے۔ کام کیا کرتے ہو؟ انہوں نے پوچھا۔ جاب کی تلاش میں ہوں جناب ۔ میں نے کہا۔  مجھے امید ہے کہ بہت جلد کوئی ملازمت مل ہی جاۓ گی ۔ اور اس وقت تک کیا اپنی بیوی کو بھوکا رکھو گے؟“ نہیں جناب، سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ جو خود کھاؤں گا اس کو بھی کھلاؤں گا ۔“ جب تمہارے پاس خود کھانے کونہیں ہے تو اس کو کہاں سے کھلاؤ گے؟ ” اس کی فکر نہ کر یں۔ شادی کے بعد نفیسہ میرا مسئلہ ہوگی۔“ لیکن شادی سے پہلے تک تو میرا مسئلہ ہے نا؟ اور میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں تم جیسے نا کارہ انسان سے اپنی بیٹی کی شادی نہیں کر سکتے ۔ میرے سینے پر پر چھیاں ہی چل کر رہ گئیں۔ نفیسہ میرے لیے سب کچھ تھی۔ زندگی میں اب تک سواۓ محرومیوں کے اور کیا ملا تھا۔ کوئی خوشی نہیں۔ اب وہ بھی ہاتھ سے چلی گئی تھی۔ دل چاہا کہ در و دیوار سے لپٹ لپٹ کر آنسو بہاؤں۔ اور اسی وقت اطہر بھائی کا شعر یاد آ گیا۔ خوشی کی جستجو دراصل غم ہے ۔خوشی کو چھوڑ دے تم بھی نہ ہوگا ۔“ کلیجے میں ٹھنڈک کی پڑ گئی۔نفیسہ نہیں ملتی ناسہی اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ میں کیوں ایک روگ پال کر بیٹھ جاؤں ۔خوشی کو چھوڑ دے۔اور میں نے خوشی کو چھوڑ دیا۔ میں نے نفیسہ کو فون کر کے مطلع کر دیا تھا کہ میں زندگی کی راہ میں اس کا ہم سفر نہیں بن سکوں گا۔ وہ کچھ دیر کی بک بک کے بعد خاموش ہوگئی۔شاید اسے بھی احساس ہوگیاتھا کہ اس کے باپ کا فیصلہ درست ہی تھا۔ اب زندگی کے کٹھن شب وروز میرے سامنے تھے۔ گھر میں کھانے کو بھی کچھ نہیں تھا۔ میں بھی بھی اپنا کھانا خود ہی بنالیا کرتا تھا۔ ورنہ عام طور پر سامنے والے ہوٹل سے جا کر کھا لیتا تھا- میں محلے کی دکان پر پہنچ گیا۔ دکان دار مجھے دیکھ کر خوش ہو گیا تھا۔ شاید اسے خیال آیا ہو کہ میں اس کا پچھلا قرض ادا کر نے آیا ہوں- تنویر بھائی, چاۓ تو چلے گی نا؟ اس نے پوچھا۔ بس دومنٹ میں آ جاۓ گی ۔ نہیں بھائی ، مجھے اس وقت چاۓ کی ضرورت نہیں ، میں نے کہا۔ ” مجھے تو بس دوکلو آٹا۔ ایک کلو چینی کھانےکا تیل دے دو ۔ ابھی لو۔ پچھلا حساب تو لے کر آۓ ہوتا ؟ نہیں بھائی، میں تو یہ بھی ادھار لے کر جاؤں گا۔ میں نے کہا۔ اچانک وہ بھڑک اٹھا۔ اس کی خوش اخلاقی ختم ہوگئی۔ رہنے دو بھائی رہنے دو۔ کمال ہے پچھلا قرض ادانہیں کیا اور چلے آرہے ہیں ادھار لینے ۔ اب کیا اس محلے میں بے وقوف بنانے کو ایک میں ہی رہ گیا ہوں۔ جاؤ بھائی کوئی اور دکان ڈھونڈو۔ اس کی بک بک سن کر بہت دکھ ہوا۔ سوچا تھا کہ سامان مل جاۓ گا تو دو چار وقتوں کے کھانے ایک ساتھ بنا کر رکھ لوں گا اچانک ایک بار پھر اطہر بھائی کا شعر یاد آ گیا۔ خوشی کی جستجو در اصل تم ہے۔ خوشی کو چھوڑ دے غم بھی نہ ہوگا ۔۔ میں نے خوشی چھوڑ دی اور کچھ لیے بغیر ہی واپس آ گیا۔ ہشاش بشاش کوئی غم نہیں تھا۔ دل پر کوئی بوجھ نہیں تھا۔ گھر کے دروازے ہی پر نیازی صاحب کھڑے ہوۓ دکھائی دے گئے۔ نیازی صاحب اپنی نوعیت کے ایک کمال انسان ہیں ۔ بہت خوش اخلاق اور بہت ہی شاہ خرچ ۔ انہوں نے ہمیشہ میری مدد کی ہے۔ ان کو دیکھ کر ایسالگا کہ خدا نے اس وقت فرشتہ بھیج دیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ نیازی صاحب نے میرا کس کس موقع پر ساتھ دیا تھا۔ جس کوارٹر میں رہ رہا ہوں اس کا ایڈوانس بھی نیازی صاحب نے دیا تھا۔ میں ان سے جا کر لیٹ گیا۔ بھائی اچانک کیسے آگئے؟ میں نے پوچھا۔ وبس تنویر صاحب! تمہاری یاد آئی تو تم سے ملنے چلا آیا۔ انہوں نے کہا۔ ”ارے یہ تو میری خوش نصیبی ہے۔ آئیں اندر آئیں۔ ہم اندر آ کر بیٹھ گئے۔ میں نے محسوس کیا کہ نیازی صاحب کچھ الجھے ہوئے تھے ۔ گھر میں اتنا چاۓ کا سامان تھا کہ دو چار کپ چاۓ بن سکتی تھی۔ میں نے انہیں چاۓ لا کر دی۔ کچھ دیر کے بعد انہوں نے کہا۔ تنویر صاحب, میں ایک عجیب کشمکش میں ہوں۔“ خیریت تو ہے، کیا ہوا؟ میں نے پوچھا۔ ہا۔ یہ ظاہر خیریت ہے لیکن اپنے وجود میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے۔ کیسی ہلچل ؟ بھئی بات میں ہے کہ میں لوگوں کا ساتھ دیتارہا ہوں ۔ آج بھی اس ارادے سے گھر سے نکلا ہوں لیکن ایک عجیب بات ہے۔ وہ کیا؟ میرا دل دھڑکنے لگا۔ بات یہ ہے کہ کسی کی مدد یا کسی کے کام آجانا میری خوشی رہی ہے۔ میں احسان تو نہیں کہتا کیونکہ اس میں میری خوشی ہے لیکن ہوا یہ کہ جن کو میں نے اپنے طور پر خوشیاں دیں۔ انہوں نے غم دیے۔ ایک قول ہے کہ جس پر احسان کرو، اس کے شر سے بچو۔ میں خوشی کی جستجو میں رہتا تھا اور ایسی خوشی مجھے کسی کے کام آ کرہی ملتی تھی ۔ آج بھی گھر سے پچاس ہزار لے کر نکلا ہوں۔“ ارے نیازی صاحب! یہ تو آپ کی بڑائی کی دلیل ہے۔ ورنہ اس زمانے میں کون کسی کا ساتھ دیتا ہے۔ انہوں نے باتوں باتوں میں مجھے ایک شعر سنادیا۔“ واہ۔ یہ تو اچھی بات ہوئی ۔ویسے وہ شعر کیا تھا؟“ تنویر صاحب ۔ یقین کر یں کہ اس شعر کو سنتے ہی ایسا لگا کہ میرے سرسے سارے بوجھ اتر گئے ہوں۔ سمجھ میں آ گیا کہ میں کہاں بھٹک رہا ہوں ۔ ” واہ صاحب۔ پھر تو بہت مبارک شعر ہوا۔ مجھے بھی سنائیں۔ شعر ہے۔

خوشی کی جستجو دراصل غم ہے۔

خوشی کو چھوڑ دے غم بھی نہ ہوگا۔

ایک بار پھر وہ لعنتی شعر میرے سامنے آ گیا تھا۔ ایک بات میں آپ سے کہنے آیا ہوں۔ نیازی صاحب نے کہا۔ ہوسکتا ہے کہ میں نے اب تک آپ کا ساتھ دیا ہو لیکن اب میں کچھ بھی نہیں کر سکوں گا۔ کیونکہ اس شعر کا مفہوم سمجھ میں آ گیا ہے۔ ارے نیازی صاحب ۔ میں بوکھلا کر بولا ۔لعنت بھیجیں اس شعر پر ۔ آپ تو نیکی کیے جائیں ۔ نہیں تنویر صاحب۔ اب اس قسم کی کوئی نیکی میں نہیں کر سکوں گا ۔ اس انقلابی شعر نے میری سوچ بدل دی ہے۔ میں یہی کہنے حاضر ہوا تھا۔ دل چاہا کہ یا تو اپنا گلا گھونٹ لوں یا اس شاعر کوزہر دے دوں جس نے بی شعر کہا ہوگا۔ نیازی صاحب کچھ دیر بیٹھ کر اس شعر پر لیکچر دے کر روانہ ہو گئے اور میں اپنے خالی پیٹ پر ہاتھ پھیرتا رہ گیا۔ خیر وہ دن تو کسی نہ کسی طرح گزار لیا۔شام کو بھوک نے جب بے تاب کیا تو میں اپنی خالہ کے پاس چلا گیا۔ وہ بھی اسی شہر میں اور میرے گھر سے کچھ فاصلے پر رہتی تھیں۔ وہ کباب بہت اچھےبناتی تھیں ۔ ان کے کباب کھا کر لطف آجا تا تھا۔ خالہ مجھے دیکھتے ہی خوش ہو گئیں ۔ ارے بیٹا تو بالکل صحیح وقت پر آیا۔ میں نے تیری پسند کے کباب بنائے ہیں۔“ کیا بات ہے خالہ آپ کی ۔ میں خوش ہو گیا خالہ ہو تو آپ جیسی ہو میں ایک طرف بیٹھ گیا۔ سوچ رہا تھا کہ کتنی دیر بعد کچھ کھانے کو ملے گا ۔ اس دوران وہی شعر میرے کان میں گونجنے لگا۔ ۔ خالہ میں نے آواز لگائی۔ خالہ میں جارہا ہوں۔ ایک کام یاد آ گیا ہے۔ ارےبیٹا کیاب تو کھا تا جا۔ انہیں خالہ پھر سہی اور میں اس مکان سے باہر آ گیا۔ باہر آتے ہی بھوک سے چکر سا آ گیا تھا ایک درخت کا سہارا لے کر کھڑا ہو گیا۔ اس وقت کسی نے مجھے آواز دی۔ ارے تنویر صاحب کہاں کھڑے ہیں؟ کیسے میں اسلم صاحب؟” میں نے پوچھا۔ کیا بتاؤں ؟ دل میں کیسی ہلچل مچی ہوئی ہے ؟ خیریت تو ہے نا کیا ہوا؟ موصوف شاعر بھی تھے۔ میرے پاس آکر بولے۔ خدا کی ۔ اس وقت کچھ اور مانگ لیتا تو شاید بھی مل جاتا۔ قبولیت کی گھڑی تھی لیکن میں نے آپ کو مانگا اور آپ مل گئے ایک بہت زبردست غزل رات کو کہی ہے۔ ایک مشاعرے میں پڑھنی ہے۔ لیکن میرا یہ دستور ہے کہ مشاعرے سے پہلے میں اپنے کسی دوست کو سنا کر دار لے لیتا ہوں ۔ تا کہ کچھ ہو گیا ہو تو وہ اصلاح کر دہے ۔ ارے صاحب میں اس قابل کہاں ہوں۔ میں گھبرا کر بولا ۔ شعرزده یہ کیا بات کر دی۔ آپ جیسا باذوق اور کہاں لے گا۔ چلیں سامنے والے ہوٹل میں بیٹھ جاتے ہیں۔ آپ بھی کہیں گے کہ کس مشکل زمین میں غزل کہی ہے۔ چلیں۔ انہوں نے میرا ہاتھ تھام لیا۔اب میں جا بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ مجھے اپنے ساتھ ہوٹل میں لے آۓ ،انہوں نے دو چاۓ کے آرڈر کے ساتھ کچھ بسکٹ بھی منگوا لیے۔ اس وقت مجھے پیٹ میں کچھ سہارے کی شدید ضرورت بھی تھی۔ بسکٹ سامنے آئے اور اسی وقت وہ کم بخت شعر یاد آ گیا۔ اس وقت خالی پیٹ کچھ کھانا میرے لیے بہت ضروری ہو گیا تھا۔ ورنہ میں بے ہوش ہی ہو جاتا۔ لیکن پھر وہی شعر خوشی کو چھوڑ دے غم بھی نہ ہوگا۔ اس موقع پر بھی اس شعر نے میرا پیچھانہیں چھوڑا۔ لیں جناب۔“ اسلم صاحب نے بسکٹوں کی طرف اشارہ کیا۔ آپ کیوں یوں ہی بیٹھے ہیں؟“ نہیں اسلم صاحب۔ اس وقت کچھ نہیں لے سکوں گا۔ میرے پیٹ میں کچھ گڑ بڑ ہے۔“ “اوہو۔ پیٹ میں گڑ بڑ ہے تو آپ کو چاۓ بھی نہیں پینی چاہیے۔ جی جی ہاں۔ میری جان نکلی جارہی تھی۔ انہوں نے ایک لمحہ انتظار کے بغیر ایک چائے کا آرڈر کینسل کر دیا اور خود چاۓ اور بسکٹ کھانےلگے ۔ جبکہ میرا یہ حال تھا کہ میں غم اور خوشی کے فلسفے میں پھنسا ہوا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی جیب سے کچھ کاغذات نکالے اور اپنی بے تکی غزل سنانے لگے۔ ایک تو غزل بے تکی۔ پھر اتنی طویل جیسے پوری اردو شاعری لکھ کر لے آۓ ہوں۔ میں کچھ دیر تو بہت حوصلے سے سنتا رہا۔ پھر آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا اور میں بے ہوش ہو کر لڑھک گیا۔ ۔ اسلم صاحب مجھے پکار رہے تھے۔ کچھ اور آوازیں بھی تھیں۔ میرے منہ پر پانی کے چھینٹے دیے جارہے تھے لیکن مجھے ہوش نہیں تھا۔ نہ جانے کتنی دیر بعد ہوش آیا ہوگا۔ میں ایک بستر پر لیٹا تھا۔ نقاہت تو تھی لیکن اتنی نہیں جتنی پہلے محسوس ہورہی تھی۔ میرے بستر کے آس پاس کچھ اور بستر بھی تھے۔ جن پر مریض لیٹے ہوۓ تھے۔ مجھے ہوش میں دیکھ کر ایک مہربان صورت کی نرس میرے پاس آ گئی۔ اب کیسی طبیعت ہے؟ اس نے پوچھا۔ کون لایا ہے مجھے؟ تم کہیں بے ہوش ہو گئے تھے۔ لوگ اٹھا کر لائے لوگ لائے ہیں ؟ کمزوری کی وجہ سے یہ حال ہو گیا ۔ ڈاکٹر صاحب کا بھی یہی خیال تھا۔ تم اب ٹھیک ہو تو جاسکتے ہو لیکن کس کمبخت کا دل تھا کی وہاں سے جائے اس لیے وہیں پڑا سوچتا رہا کہ اس طرح کیسے گزر بسر ہو گی – اچھا تھا کہ گاؤں میں ہی رہتا – ابّا کی بات مان لیتا اور آنسہ سے شادی کر لیتا – کیا ہواجو وہ میٹرک پاس تھی – ابھی بھی کچھ نہ بگڑا تھا اس لیے ہسپتال سے نکل کر سیدھا پانچ سال بعد گھر پہنچا اور ابّا کے قدموں می سررکھ دیا – جوان بیٹے کو سینے سے لگانے میں دیر انہوں نے بھی نہیں کی تھی – ابھی تو کھڑی ٹیکسی کا کرایہ بھی ادا کرنا تھا اور امی کے ہاتھ کا بنا کھانا میز پر منتظر تھا – کیا ہے نا خالی شعرکہنے اور سننے سے پیٹ نہیں بھرتا – اب گھر میں سب کے ساتھ سکوں سے رہوں گا اور ابا کے ساتھ زمینوں پر جایا کروں گا – جوانی میں جاب کرنے اور خود سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا جنوں بھی ختم ہو گیا اور دوستوں کی مصیبت میں دوستی بھی دیکھ لی-

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here