Home Blog Page 3

Brother Quotes in urdu

0
Brother Quotes in urdu

 

15+ Brother Quotes in Urdu

Brother quotes in Urdu are expressions or sayings that reflect the special bond and affection between brothers. These quotes often highlight the support, love, and companionship that siblings share. They can be inspirational, motivational, and serve as a tribute to the unique relationship between brothers. Here are a few examples:

1. “بھائی وہ شخص ہے جو ہر حال میں آپ کے ساتھ ہوتا ہے، چاہے خوشی ہو یا غم۔”
(“A brother is the person who is with you in every situation, whether in happiness or sorrow.”)

2. “بھائی کی محبت دنیا کی سب سے قیمتی چیز ہے، جو ہمیشہ دل کو سکون عطا کرتی ہے۔”
(“A brother’s love is the most precious thing in the world, always providing peace to the heart.”)

3. “بھائی وہ ہے جو آپ کی ہر مشکل میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور آپ کو کبھی اکیلا محسوس نہیں ہونے دیتا۔”
(“A brother is someone who stands by you in every difficulty and never lets you feel alone.”)

4. “بھائیوں کا رشتہ زندگی کا سب سے خوبصورت تحفہ ہے، جو ہمیشہ دل کے قریب ہوتا ہے۔”
(“The relationship of brothers is the most beautiful gift of life, always close to the heart.”)

5. “بھائی کا ساتھ زندگی کے سفر کو آسان اور خوشگوار بنا دیتا ہے۔”
(“A brother’s presence makes the journey of life easier and more enjoyable.”)

6. “بھائی وہ چہرہ ہے جو ہمیشہ آپ کے دکھ درد کو سمجھتا ہے اور آپ کو حوصلہ دیتا ہے۔”
(“A brother is the face that always understands your pain and encourages you.”)

7. “ایک بھائی کی محبت بے حد وفاداری اور سچی دوستی کا پیکر ہوتی ہے۔”
(“A brother’s love embodies immense loyalty and true friendship.”)

8. “بھائی کی ہنسی اور خوشی آپ کی زندگی کو روشن کر دیتی ہے اور ہر دن کو بہتر بناتی ہے۔”
(“A brother’s laughter and happiness brighten your life and make each day better.”)

9. “بھائی کے بغیر زندگی کا کوئی مزہ نہیں، کیونکہ وہ آپ کی ہر خوشی اور غم میں شریک ہوتا ہے۔”
(“Life is not enjoyable without a brother, as he shares in every joy and sorrow with you.”)

10. “بھائی کا پیار ایک خاص قسم کی محبت ہے جو ہر دل کو چھو جاتی ہے اور ہمیشہ یاد رہتی ہے۔”
(“A brother’s love is a special kind of love that touches every heart and is always remembered.”)

These quotes express the deep emotional connection and support that brothers provide, celebrating their important role in one’s life.

Brother Quotes in Urdu

 

باپ کے بعد بھائی ہی ہوتے ہیں جو بہنوں کے نخرے اٹھاتے ہیں ۔

 

بھائیوں کے حق میں مانگی ہوئی بہنوں کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی

 

 

بھائی بہنوں کی جان ہوتے ہیں اللہ پاک تمام بہن بھائیوں کی جوڑی سلامت رکھے آمین

 

 

ایک بھائی ایک باپ کی طرح پیار کرسکتا ہے ۔ اور ایک بہترین دوست کی طرح مدد بھی بڑا بھائی ہی کر سکتا ہے ۔

 

 

ملتی ہے ہر طرف سے یوں تو زمانے کی ہر خوشی لیکن جو بات بھائیوں میں ہے کسی اور میں کہاں

 

 

بڑے بھائی کا ہونا بھی کسی نعمت سے کم نہیں وہ ہمیں غلط راستے سے روکتے ہیں یا اللہ ہر بہن کے بھائی کی حفاظت کرنا آمین

 

جیسے دونوں آنکھیں ایک ساتھ خاص ہیں ویسے ہی بھائی بھائی کا رشتہ بھی خاص ہے ۔

 

 

بڑا بھائی کبھی نہیں کہے گا کہ وہ آپ سے محبت کرتا ہے لیکن وہ آ پکو دنیا میں سب سے زیادہ چاہتا ہے ۔

 

 

چھوٹے بھائیوں پر بڑے بھائیوں کا ایساہی حق ہے ، جیسے باپ کا بیٹے پر ۔

 

 

بھائی وہ ہوتا ہے جو آپ کی حمایت اپنے دل سے کرتا ہے اور اس سے بھی بہتر ہے وہ جس کے ہوتے ہوۓ آپ کو کسی کی ضرورت نہیں رہتی ۔

 

 

بہترین بھائی وہ ہے جو بھائی کو ایمانداری سے سچ بولنے کا مشورہ دے اور آپ کو اچھے کام کرنے کا مشورہ دے ۔

 

 

بغیر مقصد کے جو آپ کے ساتھ ہوتا ہے آپکا اپنا بھائی ہوتا ہے ۔

 

 

بھائی پریشانی کے وقت میں ہمت اور مصیبت کے وقت میں ساتھ دینے والے ہوتے ہیں ۔

 

 

بھائی کے جیسا پیار نہ ہم کسی کو کر سکتے ہیں نہ کوئی ہمیں کر سکتا ہے

 

 

اللہ نے بھائی بھائی کے تعلق میں ایک قدرتی محبت رکھی ہے ۔ اس تعلق میں دیکھاوا کم اور حقیقت زیادہ ہوتی ہے ایک دوسرے سے جڑایہ رشتہ وقت اور فاصلوں کا محتاج نہیں ہوتا ۔ اس کا آغاز پیدائش کے ساتھ ہوتا ہے اور زندگی کی سانسوں کے ساتھ جڑ کر چلتا جاتا ہے ۔

 

 

بہترین بھائی وہی ہے جس کے جانے کے بعد آپ زندہ رہنا نہیں چاہتے ۔

 

 

بھائی ایک ایسا شخص ہے جوضرورت کے وقت ہمیشہ آپ کے پاس ہوتا ہے ۔ آپ کو کبھی گرنے نہیں دیتا

 

 

بڑا بھائی ہمارا پہلا دوست اور دوسرا باپ ہوتا ہے

 

اکیلے نہیں

0

اکیلے نہیں

اکیلے نہیں

 

جب ڈیلیسے صرف آٹھ سال کی تھی تو اس کی ماں نے اسے بتایا کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر انگلینڈ چلے جائیں گے۔

ڈیلیسے کی والدہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ‘آپ کے والد کو کام تلاش کرنا چاہیے تاکہ ہم آپ کے دادا دادی اور آپ کی آنٹی کی کفالت کے لیے رقم بھیج سکیں۔’

نوجوان لڑکی منیلا میں اپنا گھر چھوڑنا نہیں چاہتی تھی جو کہ فلپائن کا ایک بہت بڑا شہر ہے اور جب اس کی والدہ نے اسے یہ خبر سنائی تو اسے بہت دکھ ہوا۔

‘لیکن میرے تمام دوستوں کا کیا ہوگا؟’ ڈیلیسے نے پوچھا۔ ‘میں انگلینڈ میں کسی کو نہیں  جانتی اور میں اکیلی ہوں گی۔’

اس کی والدہ نے ڈیلیسے کو یقین دلایا کہ یہ ان تینوں کے لیے ایک دلچسپ مہم جوئی والی بات ہونے والی ہے اور جب  وہ انگلینڈ میں اسکول شروع  کرے گی تو ڈیلیسے بہت سے نئے دوستوں سے ملے گی۔ ڈیلیسے کو اپنی ماں کے مہربان الفاظ پر یقین نہیں آیا۔ اسے اپنا گھر پسند تھا اور وہ اسکول جانا پسند کرتی تھی جہاں وہ تمام اساتذہ کو جانتی تھی اور اس کے بہت سے دوست پہلے سے ہی تھے۔

‘مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ہمیں انگلینڈ کیوں جانا پڑے گا،’ ڈیلیسے نے ایک رات پہلے سوچاجب خاندان نے جانا تھا۔ ‘میں انگلینڈ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ مجھے انگریزی بھی زیادہ نہیں آتی اور میں بالکل اکیلی ہو جاؤں گی!’

اس آخری احساس نے نوجوان لڑکی کو مزید اداس کر دیا اور اس نے دل سے خواہش کی کہ وہ منیلا میں اپنی آنٹی یا اپنے دادا دادی کے ساتھ رہ سکے۔

سفر بہت لمبا تھا اور ڈیلیسے بڑے ہوائی جہاز اور ہوائی اڈے پر بھاگنے والے تمام لوگوں سے مغلوب تھی۔

جب خاندان آخر کار انگلینڈ پہنچا تو سب کچھ عجیب سا لگ رہا تھا اور اسے یقین تھا کہ ہر کوئی اس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ برمنگھم کے شہر کی عمارتیں بڑی اور سرمئی تھیں اور ڈیلیسے کو گھرجیسا بالکل بھی محسوس نہیں ہوتا تھا۔

پہلا مہینہ اچانک گزر گیا جب خاندان کو رہنے کے لیے ایک گھر مل گیا اور ڈیلیسے کے والد کام کی تلاش میں باہر گئے تاکہ وہ فلپائن میں باقی خاندان کو پیسے واپس بھیج سکیں۔

نوجوان لڑکی بہت اکیلی تھی، اور اگرچہ اس کی ماں اس کے ساتھ کھیل کھیلتی تھی اور اسے ادھر ادھر گھمانے کے لیے باہر لے جاتی تھی، ڈیلیسے اپنے دوستوں کو بہت یاد کرتی تھی اور یہ محسوس کرنے میں  اپنے آپ کو نہیں روک سکتی تھی کہ وہ نئے شہر میں بالکل اکیلی ہے۔ رات کو وہ اپنے بستر پر روتی رہتی تھی اور وہ اکثر خواب دیکھتی تھی کہ اگلے دن اس کے والد اسے جگائیں گے اور بتائیں گے کہ وہ گھر لوٹنے والے ہیں۔ لیکن ہر صبح ڈیلیسے بیدار ہوئی اور اسے احساس  ہوتا کہ شاید وہ پھر کبھی گھر واپس نہیں جائے گی۔

ایک صبح، جب وہ دودھ کے ساتھ اناج کا عجیب سا ناشتہ کھا رہی تھی – سینانگگ کے اس کے معمول کے ناشتے کی طرح کچھ بھی نہیں جو مزیدار انڈوں سے بنے چاول تھے، ڈیلیسے کو معلوم ہوا کہ وہ اسکول جانے والی ہے۔

اس کی ماں نے کہا،’ یہ آپ کے لیے گھر سے باہر نکلنا اور نئے دوستوں سے ملنا بہت اچھا ہوگا۔’

لیکن ڈیلیسے یہ خبر سن کر خوش نہیں ہوئی ۔ اسے گھر واپسی پر اپنے دوستوں کی یاد آتی تھی، اور اگرچہ وہ گھر سے زیادہ باہر نکلنا چاہتی تھی، لیکن وہ اسکول جانے سے ڈرتی تھی کیونکہ وہ کسی کو نہیں جانتی تھی۔ ڈیلیسے نے بہت سارے بچوں کو دیکھا تھا جب اس نے اور اس کی والدہ نے برمنگھم شہر کی سیر کی تھی، لیکن کسی نے بھی اس سے بات نہیں کی تھی اور وہ زیادہ انگریزی نہیں بولتی تھی جس کے بارے میں اسے معلوم تھا کہ اسے اسکول میں مشکل پیش آئے گی۔

جب صبح ہوئی، ڈیلیسے نے یہ بہانہ کرنے کی کوشش کی کہ اسے بخار ہے اور وہ اسکول کے لیے بہت بیمار ہے، لیکن اس کی ماں ہمیشہ بتا سکتی تھی کہ ڈیلیسے کب ڈرامہ کر رہی تھی اور اس لیے اسے کپڑے پہننے اور اپنا ناشتہ کرنے پر مجبور کیا گیا۔

ڈیلیسے اور اس کی ماں اسکول کے دروازے تک ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلتی رہیں جہاں ان کی ملاقات مسز مری نامی ایک  استانی سے ہوئی۔  استانی بہت ملنسار تھی اور اس نے ڈیلیسے کا اسکول میں خیرمقدم کیا اور اس کی والدہ کو بتایا کہ وہ تین بجے دوبارہ آکر اپنی بیٹی کو واپس لے سکتی ہیں۔

صبح ایک دھندلے انداز میں گزری جب ڈیلیسے کا تعارف مزید اساتذہ اور بہت سارے بچوں سے ہوا جنہوں نے مسکرا کر ہیلو کہا۔ ڈیلیسے کو بہت کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اس سے کیا کہا گیا لیکن یہ سمجھایا گیا کہ دوپہر کو وہ دوسرے بچوں کے ساتھ ایک خصوصی کلاس میں جائے گی جو پوری دنیا سے انگلینڈ منتقل ہوئے تھے۔

جب ڈیلیسے بعد میں اس دوپہر کو کلاس روم میں پہنچی تو اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اوراندر چلی گئی۔ اجنبیوں سے ملنے کے اتنے لمبے دن سے وہ بہت نروس تھی اور بہت تھک بھی گئی تھی۔ لیکن جب وہ اندر آئی تو مسز محمود نے بڑی مسکراہٹ کے ساتھ  اس کا استقبال کیا جو پاکستان سے تھیں۔

دوستانہ بنے چاول تھے نے کہا، ‘ڈیلیسے اندر آؤ۔’ آج ہم ایک کتاب پڑھ رہے ہیں جس کا نام پُس اِن بوٹس ہے اور بعد میں ہم کچھ گیمز کھیلیں گے اور پینٹنگ کریں گے۔’

نوجوان لڑکی نے دیکھا کہ کلاس روم میں موجود تمام بچے ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔ ایک لڑکا زمبابوے سے اور دو لڑکیاں پولینڈ سے تھیں۔ البانیہ کی ایک بڑی لڑکی تھی اور ایک لڑکا جو ڈیلیسے سے بھی چھوٹا تھا جس نے کہا کہ وہ ایران سے ہے۔ اور اسے حیران کرنے کی بات یہ ہے کہ کلاس روم کے پچھلے حصے میں پُس اِن بوٹس کی ایک کاپی ہاتھ میں پکڑے کالیا نامی ایک نوجوان لڑکی بیٹھی تھی، جو کہ فلپائن کی تھی!

‘یہاں آؤ اور میرے پاس بیٹھو!’ کالیا نے کہا، جو ڈیلیسے کی طرح حیران تھی۔

دونوں لڑکیاں فوری دوست بن گئیں کیونکہ کالیا نے پُس اِن بوٹس کی کہانی کے بارے میں اور بتایا کہ انہوں نے مسز محمود کے ساتھ اپنی انگلش کو کیسے بہتر بنانا سیکھا جو پوری دنیا کی بہترین ٹیچر تھیں۔

اس دوپہر، ڈیلیسے نے کلاس میں ہر ایک بچے سے بات کی، اور اگرچہ وہ  ہر دفعہ یہ نہیں سمجھ پاتی تھی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، لیکن وہ ایک بات یقینی طور پر جانتی تھی: تمام بچے نئی زندگی شروع کرنے کے لیے انگلینڈ آئے تھے، اور اگرچہ کبھی کبھی کسی نئی جگہ پر ہونا خوفناک ہوتا تھا جہاں آپ زبان نہیں بولتے تھے، وہاں ہمیشہ کوئی نہ کوئی آس پاس ہوتا جو مدد کرتا۔ اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ دنیا میں کہاں گئے ہیں، آپ کو ہمیشہ ایک دوست ملے گا۔ ڈیلیسے کو تب احساس ہوا کہ وہ کبھی تنہا نہیں ہو گی۔ انگلینڈ اس کا نیا گھر تھا اور وہ اس سے بہترین فائدہ اٹھانے والی تھی۔

Brother Quotes in Urdu

0

15 Brother Quotes In Urdu

Brother Quotes in Urdu are expressions or sayings that reflect the special bond and affection between brothers. These quotes often highlight the support, love, and companionship that siblings share. They can be inspirational, motivational, and serve as a tribute to the unique relationship between brothers. Here are a few examples:

1. “بھائی وہ شخص ہے جو ہر حال میں آپ کے ساتھ ہوتا ہے، چاہے خوشی ہو یا غم۔”
(“A brother is the person who is with you in every situation, whether in happiness or sorrow.”)

2. “بھائی کی محبت دنیا کی سب سے قیمتی چیز ہے، جو ہمیشہ دل کو سکون عطا کرتی ہے۔”
(“A brother’s love is the most precious thing in the world, always providing peace to the heart.”)

3. “بھائی وہ ہے جو آپ کی ہر مشکل میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور آپ کو کبھی اکیلا محسوس نہیں ہونے دیتا۔”
(“A brother is someone who stands by you in every difficulty and never lets you feel alone.”)

4. “بھائیوں کا رشتہ زندگی کا سب سے خوبصورت تحفہ ہے، جو ہمیشہ دل کے قریب ہوتا ہے۔”
(“The relationship of brothers is the most beautiful gift of life, always close to the heart.”)

5. “بھائی کا ساتھ زندگی کے سفر کو آسان اور خوشگوار بنا دیتا ہے۔”
(“A brother’s presence makes the journey of life easier and more enjoyable.”)

6. “بھائی وہ چہرہ ہے جو ہمیشہ آپ کے دکھ درد کو سمجھتا ہے اور آپ کو حوصلہ دیتا ہے۔”
(“A brother is the face that always understands your pain and encourages you.”)

7. “ایک بھائی کی محبت بے حد وفاداری اور سچی دوستی کا پیکر ہوتی ہے۔”
(“A brother’s love embodies immense loyalty and true friendship.”)

8. “بھائی کی ہنسی اور خوشی آپ کی زندگی کو روشن کر دیتی ہے اور ہر دن کو بہتر بناتی ہے۔”
(“A brother’s laughter and happiness brighten your life and make each day better.”)

9. “بھائی کے بغیر زندگی کا کوئی مزہ نہیں، کیونکہ وہ آپ کی ہر خوشی اور غم میں شریک ہوتا ہے۔”
(“Life is not enjoyable without a brother, as he shares in every joy and sorrow with you.”)

10. “بھائی کا پیار ایک خاص قسم کی محبت ہے جو ہر دل کو چھو جاتی ہے اور ہمیشہ یاد رہتی ہے۔”
(“A brother’s love is a special kind of love that touches every heart and is always remembered.”)

These quotes express the deep emotional connection and support that brothers provide, celebrating their important role in one’s life.

Motivational Quotes, Love Quotes, Sad Quotes and many more.

Brother Quotes in Urdu

.ملتی ہے یوں تو ہر طرف زمانے کی خوشی مگر جو بات بھائیوں میں ہے وہ کسی اور میں کہاں۔

 

 

خوش نصیب ہے وہ بھائی ! جس کی بہن اس کو اپنی جان سے بھی زیادہ پیار کرتی ہے ۔

 

 

اے میرے پیارے رب ! میری دعاؤں میں اتنا اثر کردے کہ میرے بھائیوں کا دامن خوشی سے بھرا رہے ان کے راستے میں کوئی بھی رکاوٹ ہو اسے دور کر دے سدا ان کے سر پر رحمت کا سایہ کردے۔

 

 

.جب وقت ملے تو دیکھنا رشتوں کی کتاب کھول کر بہن کا رشتہ ہر رشتے سے لا جواب ہوتا ہے ۔

 

 

بھائی کی موجودگی میں بہن بے فکر ہوتی ہے اور وہ دنیا والوں کی فکر نہیں کرتی ۔

 

 

بہنوں کو سب سے زیادہ رولاتے بھی بھائی ہیں اور ہنسانے بھی بھائی ہیں ۔

 

 

بھائیوں کے حق مانگی ہوئی بہنوں کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی ۔

 

 

بھائی بہن کی ڈھال ہوتا ہے چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے پتا ہوتا ہے کہ اس کی بہن اس کی ذمہ داری ہے ۔

 

 

دنیا کا سب سے خوبصورت رشتہ بھائی بہن کا ہوتا ہے ۔

 

 

بھائی ہی بہنوں کے محافظ ہوتے ہیں اور بہنیں بھائیوں کی جان ہوتی ہے ۔

 

 

بھائی وہ ہوتے ہیں جن کے دل میں ہمیشہ اپنی بہن کے لئے پیار رہتا ہے ۔

 

 

بڑے بھائی کا ہونا بھی کسی نعمت سے کم نہیں وہ ہمیں غلط راستے سے روکتے ہیں ۔

 

 

ایک بہن کے لئے سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہوتی ہے کہ جب اس کا بڑا بھائی کہتا ہے تو بلکل اپنے بڑے بھائی پر گئی ہو ۔

 

 

بھائی اپنی بہن سے چاہے کتنی ہی لڑائی کیوں نہ کرلے لیکن اپنی بہن کی آنکھ میں آنسو تک نہیں دیکھ سکتا ۔

 

 

بھائی جب تنگ کرتے ہیں تو بہت غصہ آتا ہے مگر جب نہیں ہوتے تو بہت یادآتے ہیں ۔

 

مور کو جنت سے کیون نکالا گیا؟

0
مور کو جنت سے کیون نکالا گیا؟

مور کو جنت سے کیون نکالا گیا؟

مور کو جنت سے کیون نکالا گیا؟

 

مور کو جنت سے کیون نکالا گیا؟ مور جتنا اب خوبصورت ہے۔ اس سے کئی زیادہ جنت میں خوبصورت تھا۔ مور کی خوبصورتی پہ سبھی پرندے فدا تھے۔ لیکن ان سب خوبیوں کے باوجود مور سے ایسی کون سی خطا ہو گئی تھی؟ جس سے اللہ تبارک و تعالی نے مور کو جنت سے نکال دیا۔

اللہ تبارک و تعالی نے جب حضرت آدم علیہ السلام اور اماں ہوا کو پیدا فرمایا۔ اس کے بعد ان کو جنت میں بھیج دیا۔ وہ دونوں جنت میں بہت ہی پرسکون رہتے تھے۔ بہت ہی لذیذہ میوے پھل کھایا کرتے تھے۔ لیکن ایک اناج جس کو کھانے سے اللہ پاک نے انھیں منع فرمایا اور وہ اناج گندم تھا۔

چونکہ شیطان حضرت آدم علیہ سلام کی وجہ سے ہی جنت سے نکالا جا چکا تھا۔ اسی وجہ سے شیطان کی حضرت آدم علیہ سلام سے دشمنی ہو گئی تھی۔ شیطان یہ چاہتا تھا کہ وہ کسی بھی طرح حضرت آدم علیہ سلام کو جنت سے نکال دے اور ساتھ میں اماں حوا کو بھی جنت سے نکال دے۔

جب شیطان کو یہ خبر ہوئی کہ حضرت آدم علیہ کو تمام میوے کھانے کی اجازت ہے۔ لیکن گندم کھانے کی اجازت نہیں ہے۔ تو شیطان انتقام کی آگ دل میں لیے جنت کے دروازے کے پاس بیٹھ گیا۔ اور تین سو سال تک وہاں پر بیٹھا رہا کہ کوئی جنت کے دروازے سے باہر آئے اور شیطان اس سے بات کر سکے۔

ایک دن اچانک سے مور جنت سے باہر آگیا۔ شیطان اس کو دیکھتے ہی بہت خوش ہو گیا۔ شیطان نے پوچھا اے خوبصورت پرندے تم کون ہو؟ مور بولا میں مور ہوں۔ اب تم اپنا تعارف کرواؤ شیطان نے جواب دیا کہ میں عالم قروبیہ کا ایک فرشتہ ہوں۔ میں اللہ پاک کی عبادت سے ایک پل بھی غافل نہیں ہوں۔

میں چاہتا ہوں کہ میں جنت میں جاؤں۔ وہاں کی نعمتوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کروں۔ شیطان مور سےکہنے لگا کہ تم مجھے جنت کے اندر لے جاؤ۔ میں تمہیں تین ایسی باتیں بتاؤں گا۔ جس سے تمہیں ابدی زندگی حاصل ہو جائے گی۔ تمہیں بڑھاپا اور بیماری نہیں آئے گی۔ تم ہمیشہ جنت میں ہی رہو گے۔ شیطان کی یہ باتیں سن کر۔

لالچ میں آ کر مور نے کہا کہ مجھ میں تو اتنی طاقت نہیں ہے کہ میں تمہیں جنت کے اندر لے جاؤں۔ لیکن ایک سانپ میرا دوست ہے۔ وہ شاید تمہاری مدد سکے۔ یہ کہہ کر مور سانپ کے پاس آیا۔ اس کو ساری بات بتائی۔ سانپ بھی شیطان کی باتوں سے بہت خوش ہو گیا۔

پھر شیطان کو اپنے منہ میں چھپا کے جنت میں داخل ہو گیا۔ اور یوں شیطان اپنی چال میں کامیاب ہو گیا۔ جنت کے تمام نگہبانوں کو یہ معلوم تھا کہ شیطان یہ چال چل رہا ہے۔ اور جنت میں داخل ہو چکا ہے۔ فرشتے شیطان کو جنت سے نکالنے لگے۔

تب ہی اللہ پاک کا حکم ہوا کہ اس کو ابھی تک جنت میں ہی رہنے دیا جائے۔ وہ فرشتے اللہ تبارک و تعالی کے حکم سے رک گئے۔ شاید یہ حضرت آدم علیہ السلام کا امتحان تھا۔ شیطان حضرت آدم علیہ السلام کے پاس اور اماں حوا کے پاس جا کر اپنی محبت کا اظہار کرنے لگا۔

وہ دونوں ہی شیطان کو پہچان نہ سکے۔ کیونکہ ماضی کے مقابلے میں شیطان کی شکل تبدیل ہو چکی تھی۔ شیطان کہنے لگا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ دونوں ہمیشہ جنت میں اسی طرح زندگی گزاریں۔ ہمیشہ خوش رہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام اس کی بات بہت غور سے سننے لگے۔ شیطان نے کہا اگر آپ میری بات مان جائیں تو آپ کو جنت کی اور بھی تمام سہولتیں ملیں گی۔

حضرت آدم علیہ السلام شیطان کے بہکاوے میں آ کر کہنے لگے کہ یہ کس طرح ممکن ہے۔ شیطان کہنے لگا ایک گندم کا دانہ اگر آپ دونوں چکھ لیں۔ تو آپ کو ابدی حیا حاصل ہو جائے گی اور آپ جنت میں ہی رہیں گے۔ یہ بات سن کر حضرت آدم علیہ السلام کے دل میں رجحان پیدا ہوا۔ لیکن ان کے دل میں اللہ کی نافرمانی کا خوف غالب آ گیا۔

جبکہ اماں حوا شیطان کی باتوں میں آ گئی۔ جس پر اماں حوا نے حضرت آدم علیہ السلام کو راضی کر لیا۔ پھر اس کے بعد ان دونوں نے اس گندم کے دانے کو چکھ لیا۔ جیسے ہی گندم کا دانہ ان کے اندر گیا۔ تو دونوں کے ستر واضح ہوگئے۔ جس کے بعد دونوں اپنے اپنے ستر چھپانے لگے۔ اور خوفے خدا سے کانپنے لگے۔

اسی دوران اللہ تبارک و تعالی نے فرشتوں کو یہ حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا دونوں کو زمین پر اتار دو۔ حضرت آدم علیہ السلام کو سری لنکا کے قریب نیچے زمین پہ بھیج دیا۔ جبکہ اماں حوا کو جدہ کی سرزمین پر اتارا گیا۔

جن خوبصورت پیروں سے چل کر مور شیطان کو جنت کے اندر لے کر آیا تھا۔ وہی خوبصورت پاؤں اللہ پاک نے مور سے لے لیے۔ سانپ جو اپنے منہ میں شیطان کو چھپا کر لایا تھا۔ اس کے منہ کی خوبصورت خوشبو کو چھین کر۔ اس میں زہر ڈال دیا گیا۔ پھر مور کے ساتھ ساتھ سانپ کو بھی جنت سے نکال دیا گیا۔

ماں کا انتظار

0

ماں کا انتظار

ماں کا انتظار

ماں کا انتظار صائمہ کے ساتھ میری ، بہت ہی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔وہ میری پیاری سہیلی تھی اس کا  گھر ہمارے گھر سے چند قدم دور تھا۔ اس لئے ملاقات میں آسانی تھی ۔ اس کی ماں کو ہم آنٹی شیریں کہا کرتے تھے۔ وہ واقعی بے حد شیریں گفتار تھیں۔ مجھ سے بیٹی جیسا پیار کرتی تھیں، میں بھی ان کا ادب ماں سمجھ کر کرتی کیونکہ میری ماں بچپن ہی میں فوت ہو چکی تھیں ۔ میں ان کے پیار میں ممتا کی مٹھاس ڈھونڈا کرتی تھی۔ تب ہی اس گھرانے سے مجھے دلی لگاؤ تھا۔ صائمہ ایک اچھی لڑکی تھی۔ سب ہی اس سے پیار کرتے تھے- اس کے والد کی نوکری نزد یکی گاؤں میں تھی ۔ وہ کبھی کبھار شہر کا چکر لگاتے تھے۔ ہمارے شہر میں صرف ایک ہی کالج تھا۔ وہ دراصل بوائز کالج تھا، بعد میں لڑکیوں کو بھی داخلے کی جازت مل گئی، کیونکہ ہمارا شہر چھوٹا سا تھا اور یہاں ابھی تک لڑکیوں کے لئے علیحدہ کالج تعمیر نہیں ہوا تھا۔ صائمہ فرسٹ ایئر میں تھی اور پڑھائی میں بہت ہوشیار تھی۔ اس کو بڑی مشکل سے لڑکوں کے کالج میں داخلہ لینے کی اجازت ملی تھی، ورنہ گاؤں کے کہاں اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے حق میں ہوتے ہیں۔ سب ہی اس پر رشک کرتے ، اس کی ہم جولیاں اسے خوش نصیب کہتیں کیونکہ وہ خود میٹرک کے بعد کالج جانے کی حسرت لے کر گھر بیٹھ گئی تھیں، جن میں اس کی اپنی بڑی بہن ثمرین بھی تھی، جو صرف میٹرک کر سکی تھی ، آگے پڑھنے کی اجازت نہ ملی، اس کی منگنی ہو چکی تھی اور جلد شادی ہونے والی تھی۔ ثمرین بہت خوبصورت تھی ، تب ہی آنا فانا رشتہ اور اب چند دنوں بعد شادی تھی۔ تیاریاں زور شور سے جاری تھیں، صائمہ بھی بہن کی شادی کے سلسلے کافی مصروف تھی ۔ دو دن رہ گئے تو وہ ہمارے گھر شادی کارڈ دینے آئی۔ آنٹی شیریں ساتھ آئی تھیں ۔ کہنے لگیں کہ ہم تمھیں لینے آئے ہیں۔ میری سوتیلی امی تھیں، ان سے پوچھا گیا۔ ہم بشری کو لے جائیں کیونکہ یہ شادی کے کاموں میں ہاتھ بٹائے گی ۔ امی نے انکار نہیں کیا۔ یوں میں دو دن کی چھٹی ے کر ان کے گھر چلی گئی ۔ کبھی بھی معمولی سی بات کسی بڑے سانحے کا سبب بن جاتی ہے اور زندگی کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ اس دن کافی مہمان آئے ہوئے تھے کیونکہ شام کو بارات آنے والی تھی، ہم سب کام میں مصروف ے۔ سر کھجانے کی فرصت نہ تھی۔ اگلے روز وقت مقررہ پر بارات آگئی اور ہم لڑکیاں باراتیوں کو دیکھنے چھت پر پہنچ گئیں، میں بھی شوق دیدار میں گئی۔ بارات میں آئے ایک لڑکے پر نظر ٹہر گئی یہ خوبرو نوجوان تھا اور اس کا نام بدر منیر تھا، صائمہ کا کزن تھا۔ وہ آگے آگے تھا۔ میری نگاہیں بار بار اس کی طرف اٹھتی تھیں۔ اس نے بھی اس بات کو محسوس کر لیا اور اب وقفے وقفے سے اس کی نظریں بھی مجھے تلاش کرنے لگیں ۔ ایسا اکثر شادیوں میں ہوتا ہے کہ آپ کے دل کے کورے کاغذ پر کسی کی تصویر اچانک بن جاتی ہے، گھر آئی تو دل عجیب احساسات سے بھرا تھا۔ بار بار رہ رہ کر منیر کی صورت نگاہوں میں پھرتی تھی ، اس کا خیال آتا رہتا تھا۔ سوچتی تھی اے کاش ایک بار اور کہیں اس کو دیکھ پاؤں تو سجدہ شکر بجالاؤں۔ خدا نے دعا سن لی۔ کالج آئی تو وہ نظر آ گیا۔ وہ اسی کالج میں پڑھتا تھا لیکن کبھی میں نے اس پر دھیان نہیں دیا تھا۔ اچانک دیکھا تو دل خوشی سے دھڑکنا ہی بھول گیا۔ وہ مجھے دیکھ چکا تھا اور اب میری طرف ہی آرہا تھا۔ آپ یہاں اس نے سوال کیا … میں فرسٹ ائیر میں ہوں اور آپ؟ میں یہاں انٹرمیں پڑھتا ہوں یہاں کبھی دیکھا تو نہیں بس اتفاق ہے، دیکھا ہوگا بھی تو دھیان نہیں دیا ہوگا۔ چلئے اب تو نہیں بھولیں گی بے اختیار اس کے منہ سے نکلا تو میرے لبوں سے بھی بے اختیار ہی یہ کلمات نکل گئے . کبھی نہیں. اس دن کے بعد ہم دونوں روز ملنے لگے۔ جب فری پیریڈ ہوتا میں اور منیر کینٹین میں اکھٹے کچھ کھاتے پیتے اور باتیں کرتے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری دوستی پکی ہوتی گئی۔ وقت کیسے تیزی سے گزرتا چلا جاتا ہے۔ پتہ ہی نہیں چلتا۔ میں تھرڈ ایئر اور وہ فورتھ ایئر میں پہنچ گیا ۔ ہماری جدائی میں ایک سال سے بھی کم عرصہ رہ گیا تھا کیونکہ منیر کے کالج چھوڑتے ہی یہ دن شروع ہو جانے تھے۔ جدائی کے موسم آنے سے پہلے ہم کو کچھ ایسا قدم اٹھانا تھا کہ ہم ایک ہو جائیں لیکن اس کے لئے گھر والوں کی رضامندی ضروری تھی۔ میری تو ماں بھی سوتیلی تھیں ۔ گھر والوں کو پسند سے آگاہ کرنا گویا اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لینے کے مترادف تھا۔ ہوتا یہ کہ امی ابو میرا کالج جانا بند کرا دیتے۔ میں گریجویشن سے محروم ہو جاتی- تب ہی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی تھی۔ مبادا لینے کے دینے نہ پڑ جائیں، تاہم میری شدید خواہش تھی کہ منیر میرا جیون ساتھی بنے ، اس کا بھی یہی ارمان تھا بلکہ وہ تو یہاں تک کہا کرتا تھا اگر تم سے شادی نہ ہوسکی تو یقین جانو کہ میں کچھ کھا کر مرجاؤں گا، کیونکہ میں تمہاری جدائی کا صدمہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتا۔ کالج سے آکر سب سے پہلے اسے فون کرتی کپڑے بدلتی اور کھانا کھاتی تھی۔ رات کو بھی گھنٹوں ہم فون پر باتیں کرتے، ہمارا دل باتیں کرنے سے بھرتا ہی نہیں تھا۔ ان دنوں جبکہ میرے تھر ڈایئر کے پرچے ہورہے تھے۔ ابو کے ایک رشتہ دار گاؤں سے آئے، مجھے دیکھا تو اپنے بیٹے کے لئے پسند کر لیا اور رشتے کی بات کی۔ ابو نے ہاں کر دی اور منگنی کی تاریخ بھی دے دی۔ جب یہ بات مجھے پتہ چلی تو میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ میں بہت پریشان ہوئی ۔ ناشتہ بھی نہ کیا اور کالج آتے ہی منیر کو ڈھونڈنے لگی تا کہ اپنی پریشانی سے آگاہ کروں دو پیریڈ بمشکل پڑھے، تیسرا پیریڈ خالی تھا۔ اس کا بھی خالی ہوتا تھا لہذا ہم کینٹین میں آگئے۔ میرے چہرے پر نظر پڑتے ہی پہلا سوال اس نے یہ کیا کہ بشری کیا بات ہے تم کیوں اداس ہو۔ بات میرے منہ سے نہ نکل رہی تھی۔ بڑی مشکل سے بتایا کہ اگلے ماہ منگنی ہونے والی ہے۔ والد صاحب نے رشتہ طے کر دیا ہے۔ تم کچھ کرو وہ بھی پریشان ہو گیا ۔ کہنے لگا اگر تم کہتی ہو تو اپنے والدین کو تمہارے گھر بھیج دیتا ہوں ، وہ رشتہ طلب کرنے آجائیں گے جیسے بھی ہو، میں ان کو راضی کرلوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بے مراد واپس ہوں گے، ابو کسی صورت نہیں مانیں گے۔ انہوں نے اپنے جس رشتہ دار کو زبان دے دی ہے، وہ ان کے بچپن کے دوست بھی ہیں، لہذا والد صاحب نہیں مانیں گے۔ امی سگی ہوتیں تو شاید میرے جذبات کا احساس کر کے ابو سے منوا لیتیں لیکن وہ بھی میرا ساتھ نہیں دیں گی۔ تو پھر تم ہی بتاؤ کہ آگے کیا صورت باقی رہ جاتی ا تم کیا سوچتی ہو؟ اس نے پوچھا اگر تم والدین کی پسند کو قبول کرتی ہو تو میں ہمیشہ کے لئے تمہارے رہتے سے ہٹ جاتا ہوں، پھر کبھی میں تمہاری راہ میں نہیں آؤں گا۔ میں مر تو جاؤں گی لیکن تمہارے سوا کسی اور کی دلہن بننا قبول نہیں ہے۔ میں نے روتے ہوئے قطعیت سے کہا۔ پھر تو ایک ہی راستہ ہے کہ ہم کسی بڑے شہر جا کر کورٹ میرج کر لیں اور تم گھر کو خیر باد کہہ دو اگر ایسا کر سکتی ہوتو میں زندگی کے آخری سانسوں تک تمہارا ساتھ نباہنے کو تیار ہوں۔ ٹھیک ہے، میں تمہارا ساتھ دوں گی تم جب کہو کے میں گھر چھوڑ کر تمہارے ساتھ نکل چلوں گی لیکن جلد ایسا کرنا ہوگا کیونکہ منگنی کی رسم سے پہلے ہی میں تمہاری ہو جانا چاہتی ہوں اور کسی اور کے نام کی انگھوٹھی اپنی انگلی میں نہیں پہننا چاہتی۔ اچھی طرح سوچ لو کیونکہ مجھے تم جب بھی کہو گی تم کو لے چلوں گا۔ میرا گھر چھوڑنے کا مسئلہ اتنا گھمبیر نہیں ہے جتنا کہ تمہارا ہے۔ سوچ لیا ہے کسی کے ساتھ سسک سسک کر جینے سے بہتر ہے تمہارے ساتھ خوشیوں بھری زندگی گزاروں۔ یہ میرا حق ہے کیونکہ میری سانسیں میرا بدن میری زندگی میری اپنی ہے۔ تو کیوں میں اپنی روح کو کسی اور کے شکنجے میں دوں۔ صرف دوسروں کی خوشنودی کی خاطر … وہ قائل نہ بھی تھا تو میں نے اس کو قائل کر لیا اور پھر ہم نے کورٹ میرج کا پروگرام بنا لیا۔ دن اور وقت طے ہو گیا۔ اس نے کہا کہ رات کو دو بجے میں تمہارا انتظار کروں گا- تمہارے گھر کے پیچھے گلی میں آجاؤں گا۔ جب رات کے دس بج گئے میں بہت پریشان ہو گئی۔ سوچ رہی تھی کہ گھر والے سب سو جائیں تو میں کپڑے تبدیل کروں اور بیگ میں تھوڑا سا سامان ضرورت کا اور چند جوڑے کپڑے رکھ لوں، بارہ بجے تک سب ہی سو گئے۔ تب میں نے نہا کر کپڑے بدلے۔ بال خشک کئے پھر بیگ تیار کیا، بہت آہستہ آہستہ سارے کام کئے کہ کھٹکا نہ ہو اور نہ کسی کی آنکھ کھلے۔ مقررہ وقت سے پانچ منٹ پہلے بیگ اٹھا کر میں گھر سے نکل آئی۔ دروازے کی کنڈی بھی نہیں لگائی کہ کھٹکا نہ ہو جائے۔ گھر کا پچھلا دروازہ جو عقبی کی طرف کھلتا تھا اس کو کھلا ہی چھوڑ دیا۔ چند قدم آگے آئی تو منیر ایک خالی مکان کی دیوار سے لگا کھڑا تھا۔ اس کو دیکھ کر جان میں جان آگئی اور وہ بھی مجھے دیکھتے ہی تیزی سے میری طرف آیا۔ میرا بیگ ہاتھ میں لے لیا اور تھوڑا سا چلنے کے بعد ہم گلی کے نکڑ پر پہنچے، جہاں اس نے گاڑی کھڑی کر رکھی تھی، شکر ہے کسی نے نہیں دیکھا اور ہم بحفاظت محلے سے نکل کر بڑی سڑک پر آگئے، اب ہمارا رخ لاہور کی طرف تھا۔ رات بھر سفر کے بعد صبح 10 بجے کے قریب ہم اب لاہور پہنچ گئے ۔ کافی تھکن ہورہی تھی لہذا منیر نے گاڑی ایک ہوٹل پر کھڑی کر دی اور ہم نے ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لے لیا تا کہ کچھ آرام کرلیں۔ منیر نے اپنا شناختی کارڈ جمع کرا دیا تھا۔ ہمیں ہوٹل میں کرائے کا کمرہ مل گیا۔ ہم تھکے ہوئے اور کچھ خوفزدہ بھی تھے یہاں پرسکون ماحول ملا۔ بستر پر لیٹتے ہی نیند آگئی، دو بجے تک بے خبر سوتے ہے۔ دوپہر کو نہا دھو کر کھانا منگوایا۔ کھانا کھا کر منیر لیٹ گئے تو میں نے سوال کیا کہ گھر سے تو آگئے ہیں۔ اب بتاؤ آگے کیا کرنا ہے کہا تھوڑی دیر سوچنے دو کہ کیا کرنا ہے۔ پہلے نکاح کا انتظام کیا جائے تا کہ ہمارا ساتھ جائز رہے۔ وہی تو سوچ رہا ہوں یہاں لاہور ہائی کورٹ میں میرا ایک دوست وکالت کرتا ہے۔ اس کے پاس جاتا ہوں اس سے بات کر کے پھر تم کو آکر کورٹ لے جاؤں گا اور نکاح ہوگا۔ گواہوں کا انتظام بھی شاید وہی کر دے گا لیکن اس سے پہلے ہمیں رہائش کا سوچنا ہے نکاح کے بعد کہاں جائیں گے۔ عمر بھر تو اس ہوٹل میں نہیں رہ سکتے ، زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ رہ سکیں ے۔ کوئی مکان کرایہ پر تلاش کرنا ہوگا، ابھی فورتھ ائیر کے پرچے دینے ہیں۔ یہ سارے مسئلے حل ہو جائیں گے لیکن والدین کو جب پتہ چلے گا کہ ہم نکل آئے ہیں، وہ ہم کو تلاش کریں گے اس کا کیا ہوگا ….. اس سوال پر منیر نے متفکر ہو کر کہا ہاں یہ زیادہ سنگین مسئلہ ہے، مجھ پر پولیس کیس بھی بن سکتا ہے اور وہ اغوا کا پرچہ درج کر سکتے ہیں۔ میں نے اپنے گھر والوں کو بھی نہیں بتایا ہے یقیناً ان کو پولیس گرفتار کرے گی ، مشکلات کا سامنا انہیں کرنا پڑے گا۔ یہ باتیں ہم ڈسکس کر رہے تھے اور پریشان ہو رہے تھے کہ گھر سے قدم نکالتے وقت تو ایسا کچھ سوچا نہیں تھا اور اب یہ باتیں سوچ رہے تھے۔ اس وقت آنکھوں پرعشق کی پٹی بندھی ہوئی تھی ، معاشرتی حقائق اور مشکلات ذہن میں ہی نہیں آئے تھے اور یہ حقیقی عفریت منہ پھاڑے سامنے کھڑے تھے۔ منیر نے کہا میں آصف وکیل کے پاس جاتا ہوں اور کورٹ میرج کی بات کرتا ہوں، دیکھوں وہ کیا ٹائم دیتا ہے، پھر تم کو لے چلوں گا تم ہوٹل کے کمرے کو اندر سے لاک کر لینا جب تک کہ میں نہ آؤں دروازہ بجے بھی تو مت کھولنا۔ میں مینجر کو بتا دوں گا اور دو چار گھنٹے تک آجاؤں گا گھبرانا نہیں۔ یہ کر وہ چلا گیا اور میں اس کا انتظار کرنے لگی۔ کمرے میں ٹی وی رکھا تھا، اس کو آن کیا اور دل بہلانے لگی۔ شام کو منیر لوٹ آیا۔ بتایا کہ آصف مل گیا ہے۔ کل کاغذات ٹائپ ہوں گے اور گواہوں کا انتظام ہو گا، پھر تم کو لے جاؤں گا کیونکہ کورٹ میں میرا بیان بھی قلمبند ہوگا۔ اگلے روز وہ صبح ہی چلا گیا اور پھر صبح سے شام ہو گئی منیر نہ لوٹا، میرا جی گھبرا رہا تھا۔ بار بار گھڑی دیکھتی تھی لیکن وقت جیسے تھم گیا تھا۔ ٹی وی آن کیا تو ایک ہولناک خبر سنی کہ ہائیکورٹ کی بلڈنگ کے قریب ہی خود کش دھماکا ہو گیا تھا۔ بہت سے پولیس والے اور راہگیر مر گئے اور بہت سے زخمی ہوئے تھے ، یہ خبر سنتے ہی کلیجہ تھام لیا کیونکہ منیر بھی تو ادھر گیا ہوا تھا۔ شام سے رات ہو گئی۔ وہ نہیں آیا۔ خدا جانتا ہے کہ وہ رات کیسے گزاری۔ پل بھر کو آنکھ نہ لگی۔ شب بھر منیر کی خیر و سلامتی کی دعا کرتی رہی۔ رات کا کھانا بھی نہ کھایا۔ بیرے نے ایک بار در بجایا مگر میں نے کھولا اور نہ جواب دیا تو وہ لوٹ گیا۔ صبح ہوئی اور منیر نہیں آیا تو میں سمجھ گئی کہ کچھ ہو چکا ہے۔ دوپہر کو منیجر نے فون کیا۔ ڈرتے ڈرتے میں نے ریسیور اٹھایا۔ اس نے بتایا کہ منیر صاحب شدید زخمی تھے۔ خودکش دھماکے میں ان کی ٹانگیں اڑ گئی تھیں۔ اسپتال میں ان کو ہوش نہیں آسکا وہ چل بسے ہیں اور ان کی جیب سے ہمارے ہوٹل کا کارڈ ملا تو اسپتال والوں نے فون کیا ہے۔ آپ ان کے گھر والوں کا پتہ دیں۔ میں نے منیر کے والد کا نمبر لکھوادیا اور منیجر سے کہا کہ ان کو میرا مت بتائے گا کیونکہ ہم گھر والوں سے چوری چھپے نکلے تھے اور وہ کورٹ میں کورٹ میرج کے سلسلے میں اپنے ایک وکیل دوست سے ملنے گئے تھے- بدنصیبی سے سانحے کی زد میں آگئے۔ ایسا کہتے ہوئے میں رورہی تھی ۔ تب منیجر نے کہا گھبراؤ نہیں مجھ کو اپنا بھائی سمجھو اور جہاں کہو میں پہنچانے کا انتظام کر دیتا ہوں، البتہ سامان آپ ۔ ساتھ نہیں لے جاسکتیں یہ ہمیں منیر صاحب کے وارثوں کے حوالے کرنا ہوگا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے میں تھوڑی دیر میں سوچ کر بتاتی ہوں۔ میجر پر مجھے اعتبار نہ تھا، یقینا وہ مجھ کو پولیس کے حوالے کرنا چاہتا تھا۔ وہ محض مجھ کوتسلی دے رہا ہے تب ہی میں نے اپنی دانست میں چالاکی سے کام لیا۔ بیرے کو بلا کر دو ہزار روپے دیئے اور کہا کہ تم میرے بھائی ہو۔ کسی طرح مجھے یہاں سے نکالو لیکن اس طرح کے منیجر کو خبر نہ ہو بیرے نے کہا دو ہزار نہیں اگر پانچ ہزار دو گی تو تمہیں یہاں سے ایسے نکالوں گا کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوگی، ورنہ پولیس ابھی یہاں پہنچ جائے گی یہ دشوار کام ہے۔ میری نوکری خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اس وقت میں بہت گھبرائی ہوئی تھی ۔ گھر والوں سے خوفزدہ تھی کہ کچھ نہ سوچا اوپر سے پولیس کا ڈر تھا کہ منیجر ضرور کوئی ایسی کارروائی کرنے میں لگا ہے کہ چند لمحوں بعد میں گرفت میں آجاؤں گی۔ حالانکہ بم دھماکے میں جاں بحق ہونا منیر کے لئے تو ایک حادثاتی سانحہ تھا مگر میرا اس کے ساتھ گھر سے بھاگ آنا جرم ہی گردانا جاتا۔ پس میں نے پانچ ہزار بیرے کو دیئے اور اس نے مجھ کو ہوٹل سے باہر جانے کا دوسرا راستہ دکھا دیا۔ جب میں پہلی سیڑھی سے باہر آئی تو کسی نے نہیں دیکھا۔ وہاں ٹیکسی کھڑی تھی بیرے نے مجھ کو اس میں بیٹھ جانے کا اشارہ کر کے کہا کہ یہ تم کو میرے گھر لے جائے گی ، وہاں جا کر آرام سے بیٹھ جانا اور میں ڈیوٹی ختم کر کے آجاؤں گا، پھر تم جہاں کہو گی تم کو پہنچا دوں گا۔ منیر کا سامان میں نے ہوٹل میں رہنے دیا تھا۔ صرف اپنا بیگ جس میں میرے کپڑے نقدی اور کچھ زیورات تھے ساتھ لیا۔ ٹیکسی ڈرائیور نے مجھے بیرے کے گھر کے دروازے پر اتارا شاید وہ اس کو جانتا تھا۔ بیرے کا نام افتخار تھا اور یہ ٹھیک آدمی نہیں تھا۔ ہوٹل میں جو مرد عیاشی کے لئے آکر ٹھہرتے تھے یہ ان کو غلط قسم کی تفریح مہیا کرنے کا ذریعہ تھا لہذا اس کا رابطہ اس بازار سے بھی رہتا تھا۔ افتخار رات کو آ گیا۔ اس کے گھر میں خواتین نہیں تھیں اکیلا ہی رہتا تھا۔ آتے ہی اس نے ایک عورت کو فون کیا ۔ تھوڑی دیر میں وہ عورت آئی دونوں نے کچھ دیر تک دوسرے کمرے میں گفت و شنید کی پھر بولا بشری بی بی یہ میری خالہ ہیں، قریب ہی رہتی ہیں تم ان کے گھر چلی جاؤ کیونکہ میں یہاں اکیلا رہتا ہوں لہذا تمہارا یہاں رہنا مناسب نہیں ہے۔ یہ تم کو کل یہاں پہنچا دیں گی۔ چاہو تو اپنا سامان رہنے دو یا ساتھ لے جاؤ خالہ نے کہا ان کا سامان یہیں رہنے دو کل میں منگوالوں گی ، ابھی رات ہو رہی ہے اور ہم دونوں عور تیں ٹیکسی میں جائیں گی سامان لے جانا ٹھیک نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان بیگ میں زیور وغیرہ یا کوئی قیمتی سامان بھی ہو۔ میں منیر کی ہلاکت کے صدمے سے نیم جان تھی- اوپر سے خالہ کی ہمدردانہ باتیں اور بار بار گلے لگا کر کہتی تھیں مت رو میری بچی رونا نہیں۔ مجھے ماں سمجھو۔ جیسا کہو گی ویسا ہی ہوگا ۔ بھروسہ رکھو۔ کل تک تجھے تیرے گھر پہنچا دوں گی۔ اس شاطر عورت نے میرا سامان افتخار کے حوالے کیا اور مجھے ٹیکسی میں بٹھا کر اس جگہ لے آئی جس کو بازار حسن کہا جاتا ہے، میں جب یہاں آئی اور ماحول کا اندازہ ہوا تو ہکا بکا رہ گئی۔ منیر کے مرنے کا غم بھی بھول گئی ، سامنے اپنی عزت کی موت نظر آرہی تھی، اس جگہ آنے سے تو مر جانا کیا برا تھا، کاش میں منیر کے ساتھ ہی بم دھماکے میں اڑ جاتی۔ میں تھر تھر کانپ رہی تھی۔ ہاتھ پیر پھولے ہوئے تھے ۔ عورت کے کوٹھے پر لوگ آگئے تھے۔ میری آنکھیں حیرت سے پھٹنے لگیں کہ ان میں ایک پولیس افسر کے ساتھ میرا کزن منصب خان بھی تھا۔ منصب کو دیکھ کر سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ رویؤں یا ہنسوں۔ میں ہمت کر کے پردہ ہٹا کر اس کی طرف دوڑی اور اس کے پاس جا کر رونے لگی وہ بھی مجھے کو دیکھ کر حیران پریشان ہو گیا تو میں نے کہا۔ منصب میں رستہ بھول گئی تھی اور یہ لوگ دھوکے سے یہاں لائے ہیں خدا کے لئے مجھے یہاں سے لے چلو۔ کب لائے تھے یہ تم کو ؟ ابھی تھوڑی دیر پہلے، میں نے جواب دیا۔ اچھا فکر نہ کرو اس نے اپنے پولیس آفیسر دوست سے کچھ کہا اور اس نے بالا خانے کی مالکہ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ میں نے دیکھا عورت خوفزدہ ہوگئی۔ اس نے ہاتھ باندھے اور پھر منصب سے کہا کہ بے شک اس کو لے جاؤ کیونکہ ابھی میں نے اس کے پیسے نہیں دیئے، اصل مجرم ہوٹل کا بیرا افتخار ہے، اس کا سامان بھی اسی کے پاس ہے، وہی اسے فروخت کرنے لایا تھا۔ منصب میری سوتیلی والدہ کا بھانجا تھا۔ وہ مجھے ساتھ لے آیا اور اپنے دوست پولیس والے سے کہا کہ یہ میری خالہ کی بیٹی ہے، اس لئے بات نہیں نکلنی چاہئے ، ورنہ خاندان کی بدنامی ہوگی ۔ غلطی سے ان بد معاشوں کے ہاتھ چڑھ گئی۔ شکر ہے ہم یہاں بر وقت آگئے۔ بہر حال میں صبح ہی اس کو گھر لے جاؤں گا تم افتخار سے اس کا بیگ برآمد کراؤ جس میں اس کا شناختی کارڈ، زیور اور نقد رقم ہے۔ وہ رات میں نے منصب کے ساتھ گزاری۔ گرچہ میرا دل منیر کے لئے دکھ سے بھرا ہوا تھا مگر میں نے منصب پر یہ ظاہر نہ ہونے دیا کہ مجھ کو منیر کا دکھ ہے اور میں اس کے لئے رورہی ہوں۔ گناہ منیر نے میرے ساتھ نہیں کیا کیونکہ وہ نکاح کے بعد جائز رشتے سے ملنا چاہتا تھا ، تا کہ خدا ہم سے خوش ہو مگر موت نے اس کو مہلت نہ دی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو گناہ سے بچا لیا۔ وہ ایک سچا انسان تھا مگر منصب میں خود پر قابو پانے کا حوصلہ نہ تھا، اس لئے مجھے اس بازار کی گندگی بننے سے تو بچا لیا تھا مگر خود اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا، جب میں زار و قطار روئی تو وہ شرمندہ ہوا اور اس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ مجھے سے شادی کرے گا اور معافی بھی مانگی مگر اب کیا فائدہ تھا لوٹ لینے کے بعد کوئی معافی مانگے تو دامن تار تار ہی رہتا ہے۔ اگلے دن منصب مجھے گھر لے آیا اور میرے والدین کو سمجھایا کہ اس کو کچھ مت کہنا جوغلطی ہوئی ہے اس کو معاف کر دیجئے اور شکر کیجئے کہ اس کی عزت اس بازار میں نیلام ہونے سے بچ گئی ، اس روز اگر میں اپنے اس پولیس آفیسر کے ساتھ وہاں نہ جاتا تو نجانے اس پر کیا قیامت گزر جاتی۔ اللہ کا کرم ہوا کہ میرا وہاں جانا آپ کی عزت کے تحفظ کا سبب بن گیا اور شاید منیر کی موت بھی اسی طرح لکھی تھی کہ وہ بھیانک حادثے میں اس طرح دنیا سے چلا گیا۔ یہ حقیقت تو بہرحال سب کو پتہ چل چکی تھی کہ میں منیر کے ساتھ بھاگی تھی مگر موت اس کو لے جا چکی تھی لہذا کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ منصب کے سمجھانے پر امی ابو خاموش ہو گئے ۔ اگرچہ مجھ سے ناراض بہت تھے اور بات بھی نہ کرتے تھے مگر مار پیٹ سے کام نہیں لیا کہ اس میں ان کی بدنامی تھی ، پھر منصب نے ابو کو یقین دلا دیا تھا کہ فکر مت کریں، میں آپ کی بیٹی سے شادی کروں گا۔ اب کوئی اس سے بدسلوکی نہ کرے اور نہ گھر سے بھاگنے کا طعنہ دے۔ منصب ہر دوسرے تیسرے دن مجھے فون کرتا تھا اور میری خیریت دریافت کرتا تھا۔ کبھی کبھی میں بھی فون کرتی کہ میری اندھیری زندگی کی اب وہ ایک ہی اس تھا۔ ایک روز اس کا فون نہ آیا اور میں نے بھی فون نہیں کیا تو اگلے دن اس نے فون کر کے کہا کہ بشری رات تم نے بھی فون نہیں کیا کیوں؟ میں انتظار کرتا رہا۔ مہمان آئے ہوئے تھے جس کی وجہ سے میں نے فون کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ میں نے بہانہ کیا۔ تم کو پتا ہے جس رات میں تم سے بات نہیں کرتا ہے کہ اس شب یہ کالی رین گزرنے کا نام نہیں لیتی اور تم ہو کہ بات نہیں سمجھتیں ، میں سمجھتیں ہوں مگر مجبوری ہے۔ اچھا میں تمہارے شہر آرہا ہوں ، صرف تم کو دیکھنے چھپ نہ جانا۔ سامنے ضرور آنا اچھا کہہ کر میں نے فون بند کر دیا۔ دل گھبرانے لگا – بے شک منصب کو مجھ سے پیار ہو گیا تھا مگر میں جانتی تھی کہ اس کی منگنی اس کے ماموں کی بیٹی آسیہ سے ہو چکی ہے اور مجھے سے شادی کرنے کے لئے اس کو اس رشتے سے بغاوت کرنی پڑے گی جو میری امی کو کسی صورت گوارہ نہ تھا۔ منصب گھر آتا تو بھی امی کے سامنے ہم بات نہ کرتے کہ ماں اپنے بھانجے کا مجھ سے گھلنا ملنا سخت نا پسند کرتیں ، تاہم فون پر اس نے کہا کہ صرف تم سے ملنے آرہا ہوں۔ وہ یہاں اپنے گھر والوں سے ملنے آ رہا تھا، پھر اس نے مجھ سے ملنے آنا تھا مگر گھر پر بات نہیں ہو سکتی تھی لہذا اس نے یہاں آکر فون کیا کہ پھر تم فرح کے گھر آجاؤ وہاں بات کر لیتے ہیں۔ فرح اس کے چچا کی بیٹی تھی اور ان کا گھر قریب ہی تھا۔ مجبوراً میں نے امی سے کہا کہ فرح بیمار ہے، کیا میں پوچھنے چلی جاؤں وہ بولیں ہرگز نہیں۔ شام ہونے والی ہے یہ کون سا وقت ہے فرح کے ہاں جانے کا تمہارے ابا ناراض ہوں گے۔ میری بہن نے طرفداری کی ۔ امی جانے دونا بھیا چھوڑ آئے گا۔ ہر گز نہیں۔ آج کل جوان لڑکی کو بھیجنے کا زمانہ نہیں لوگ پہلے ہی کیا کم باتیں بناتے ہیں۔ اتنے میں فرح کے گھر سے اس کا چھوٹا بھائی آگیا کہ فرح باجی کو اسپتال لے جارہے ہیں ، تب امی کا دل پسیجا، بولیں تم لوگ گھر پر رہو۔ میں خود جاتی ہوں وہاں۔ اسی دم وہ فرح کے گھر چلی گئیں۔ ان کے جانے کی دیر تھی کہ منصب گھر آگیا، دراصل اس نے فرح کے بھائی کو بھیجا تھا۔ امی گھر پر نہ تھیں ۔ اب ہم بات کر سکتے تھے، تب اس نے کہا بشری ۔ تم ماں کو راضی کر لو کیونکہ تمہیں پتہ ہے کہ میری ماں آسیہ کے علاوہ کسی کو بہو نہ بنائیں گی وہ ضد کی پکی ہیں۔ یہ ناممکن ہے تمہاری خالہ میری سگی ماں نہیں ہے، تم جانتے ہو تم ان کو راضی کر سکتے ہو تو کوشش کر کے دیکھو میں ان کے سامنے زبان نہیں کھول سکتی ۔ اچھا بتاؤ اگر ہماری شادی پر کوئی راضی نہ ہو تو کیا تم مجھ سے کورٹ میرج کر لو گی ۔ اس کی بات سن کر مجھ کو ٹھنڈا پسینہ آگیا کیا کہہ رہے ہو۔ منصب ایک بار پہلے بھی میں اس راہ گزر چکی ہوں اور رستہ بھول چکی ہوں تم نہ ملتے تو تباہی میرا مقدر تھی لیکن اس بار ایسا نہ ہوگا، میں جو تمہارے ساتھ ہوں ۔ تم خود اپنے اور میرے گھر والوں سے بات کرو گے منصب، میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گی … کوشش تو کرو اس نے کہا آگے مقدر کی بات ہے لیکن کوشش کرنے میں ہرج ہی کیا ہے۔ یہ ناممکن ہے ہاں اگر تم میرے والد صاحب کو راضی کر لو تب شاید یہ ممکن ہو جائے۔ منصب نے گھر جا کر اپنی والدہ سے بات کی۔ اس کی ماں نے میری ماں سے کہا امی نے اس وقت مجھ پر غصہ اتارنا شروع کر دیا۔ کہ کیا تجھے اسی ان کے لئے پروان چڑھایا تھا۔ اب جو تیری خالہ کہہ رہی تھی مجھے تو سن کر شرم آرہی تھی تو مر کیوں نہ گئی بے حیا ، پہلے ایک کے ساتھ بھاگی، اب دوسرے کے ساتھ دوستی کرلی ہے۔ منصب میرا خون ہے۔ کیا وہ تھوکا چاٹے گا؟ تم نے ڈورے ڈالے بھی تو کس پر؟ میرے بھائی کی بیٹی آسیہ کے حق پر ڈاکہ ڈالنے جارہی ہے بے غیرت ۔ تو نے ہمیں ڈس لیا ہے، ہم تو برباد ہو گئے ہیں۔ اگلے دن خالہ آگئیں بولیں میرا بیٹا کہہ رہا ہے کہ بشری کے سوا کسی سے شادی نہ کرے گا۔ جان دے دے گا ۔ کیسی بے حیا ہے تمہاری لڑکی کہ میرا بیٹا اپنے منہ سے نام لے رہا ہے۔ میں رونے لگئی امی ان کی باتیں مت سنیں، ان کا بیٹا خود میرے پاس آیا تھا۔ میں نہیں گئی تھی ان کے بیٹے کے پاس. بکواس بند کر بے حیا کچھ شرم کر لڑکے ایسی لڑکیوں سے شادی نہیں کرتے جو گھر سے بھاگ چکی ہوں ۔ اس نے تم سے شادی کر بھی لی تو کچھ دن بعد چھوڑ دے گا۔ وہ ہمارا خون ہے، میں اس کو اچھی طرح سے جانتی ہوں۔ امی نے مجھ کو اتنی سنائیں کہ میں خون کے آنسو رونے لگی۔ آخر کار کمرے میں بند ہوئی ۔ تب ہی فون کی گھنٹی بجی۔ منصب کا فون تھا۔ اس نے کہا سیدھی انگلیوں سے گھی نہیں نکلے گا، ہمارے بزرگ یوں ماننے والے نہیں ہیں۔ میں کسی قیمت آسیہ سے شادی نہیں کروں گا اور تم اپنی عصمت کا گوہر میرے حوالے کر چکی ہو تو بہتر ہے کہ شادی بھی مجھ سے کر لو۔ کیسے کروں کوئی مانتا نہیں روتے ہوئے میں نے کہا- ایسے ہی جیسے منیر کے ساتھ بھاگ کر شادی کرنے چلی گئی تھی- میرے لئے کیا گھر کی دہلیز پار نہیں کر سکتیں جبکہ میں نے تمہارے ماضی کو ایشو نہیں بنایا ہے۔ تم کو واپس گھر پہنچایا ہے۔ کیا اب بھی میری محبت کا اعتبار نہیں ہے؟ ہمت کرو اور نکلو گھر سے ، ہم کراچی جا کر کورٹ میرج کر لیں گے۔ غرض وہ مجھے اکساتا رہا اور مجھے ماں کی باتیں یاد آرہی تھیں ، تب بن سوچے سمجھے میں نے کہہ دیا کہ میں آجاؤں کی جگہ بتا دو۔ اس نے وقت اور جگہ بتا دی اور کہا کہ میں لینے آجاؤں گا گھبرانا نہیں آسیہ سے چھٹکارا پانے کا بس یہی ایک طریقہ ہے- میرے دل میں بھی سوتیلی ماں کے خلاف انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی کیونکہ انہوں نے مجھے بہت ستایا اور رلایا تھا ، بہت گندی گندی گالیوں سے نوازا تھا۔ بے عزتی اور اہانت کرنے میں کوئی کسرنہ چھوڑی تھی۔ رات کو میں نکل گئی ، گرچہ ضمیر ملامت کرتا رہا سارا دن یہی سوچتی جاتی تھی کہ جو میں کر رہی ہوں ٹھیک ہے۔ جب گاڑی کراچی کے اسٹیشن پر رکی میں نے ادھر ادھر دیکھا منصب مجھے کہیں دکھائی نہ دیا۔ دو گھنٹے میں پلیٹ فارم پر کھڑی اس کی راہ تکتی رہی ادھر اُدھر ٹہلتی رہی۔ دو نوجوان کافی دیر سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میرے قریب آگئے اور آنکھ مار کر بولے ہمارے ساتھ چلو گی میں گھبرا گئی۔ پسینے پسینے ہوگئی تو وہ قہقہے لگانے لگے کہ یار وہ نہیں آیا جس کے لئے یہ بھاگ کر آئی ہے، ایسا ہی لگتا دوسرے نے کہا تو چلے گی ہمارے ساتھ ہاہاہا ان کے قہقہے میرا پیچھا کرنے لگے۔ شام ہونے والی تھی اور لوگ عجیب عجیب نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ کافی دیر ہو چکی تھی، میں نے سوچا شاید اب وہ نہیں آئے گا۔ زمانے کی تو عادت ہے دھوکا دینے کی۔ پھر بھی دل یہی کہتا تھا۔ نہیں وہ ایسا نہیں ہے۔ اب میں سوچ رہی تھی کہ اگر منصب نہیں آیا تو مجھے واپس جانا پڑے گا مگر میں کس منہ سے گھر والوں کا سامنا کروں گی، خاص طور پر اپنے والد کو کیا منہ دکھاؤں گی کہ جنہوں نے پہلی غلطی پر مجھے معاف کر دیا تھا۔ حالانکہ ان کی عزت نیلام ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔ ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ عقب میں قدموں کی آہٹ ہوئی۔ ڈرتے ڈرتے مڑ کر دیکھا تو میری سانس رک گئی منصب تھا مگر ساتھ ابو بھی تھے ابو کو دیکھ کر جان نکل گئی۔ اب ابو اور منصب آگے آگے تھے اور میں ایک مردہ لاش کی طرح ان پیچھے پیچھے چل رہی تھی، آخر ہم ایک ہوٹل آگئے۔ مجھے وہاں چھوڑ کر ابو اور منصب چلے گئے ۔ نکاح کا انتظام کرنے کے لئے ۔ اگلے دن میرا نکاح تھا ابو نے خود میرا نکاح منصب سے کرایا اور مجھے اس کے حوالے کر کے خود گھر واپس چلے گئے۔ انہوں نے گھرجا کر امی کو کچھ نہ بتایا کہ کیا ہوا ہے۔ جانتے تھے کہ امی نہ صرف ہنگامہ برپا کر دیں گی بلکہ ابو سے اس عمر میں طلاق مانگ لیں گی کہ میں نے ان کی بھابھی کے ہونے والے سرتاج کو اپنے سر پر سجا لیا تھا۔ کافی دن بعد ایک روز دروازہ بجا۔ میں نے کھولا سامنے بھائی کھڑا تھا مجھے دھکا دیا۔ میں گرتے کرتے بچی۔ منصب نے سنبھال لیا۔ بھائی چلا رہا تھا کہ میں تجھے زندہ نہ چھوڑوں گا، تیری لاش لے کر جاؤں گا۔ منصب نے اس کو روکنا چاہا۔ سمجھانا چاہا مگر وہ نہ رکا ۔ تب منصب نے میرے بھائی کو بتا دیا کہ اس کا اور میرا بندھن آپ کے والد صاحب کی رضامندی سے ہوا ہے اور تصویر اس کو دکھا دی، جس میں میرا اور منصب کا نکاح ہو رہا تھا اور ابو بھی اس تصویر میں موجود تھے۔ بھائی کا غصہ تھم گیا۔ منصب نے کہا۔ یہ سب تمہارے والد صاحب کی منصوبہ بندی سے ہوا ہے، کیونکہ تمہاری والدہ کسی صورت نہ مانتی تھیں تو ایسا کرنا پڑا- بھائی خاموش ہو کر لوٹ گیا لیکن پھر کبھی میرے دروازے پر نہیں آیا۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ابو فوت ہو گئے ۔ امی کو اصل حقیقیت پتہ چل چکی ہے۔ میں شب و روز ان کا انتظار کرتی ہوں لیکن وہ نہیں آتیں شاید انہوں نے میری صورت نہ دیکھنے کی قسم کھالی ہے۔

بسم اللہ کی برکت کا واقعہ

0

بسم اللہ کی برکت کا واقعہ

 

بسم اللہ کی برکت کا واقعہ

 

بسم اللہ کی برکت کا واقعہ کہا جاتا ہے کہ کسی علاقے میں قحط سالی پیدا ہوگئی۔ اس قحط سالی کی لپیٹ میں نہ صرف انسان بلکہ چرند و پرند سب اس کا شکار ہوگئے۔ مویشی مالکان بے حد پریشان تھے۔اس دوران ایک مسجد کے مولوی نے جمعہ کے خطبے میں نہایت یقین کے ساتھ یہ بات بتائی کہ اللہ کا نام لے کر یعنی بسم اللہ پڑھ کر دریا کو حکم دیا جائے تو وہ بھی نافرمانی نہیں کرتا۔

خطبہ سننے والوں میں ایک چرواہا بھی مجود تھا۔ مولوی کی یہ بات اس کے دل میں اتر گئی۔ اور اس بات پر اس کا یقین کامل ہوگیا۔ اس نے واپس آ کر اپنی بکریاں کھولیں اور سیدھا دریا پر چلا گیا۔ اونچی آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا اور دریا کو کہا وہ اپنی بکریاں چروانے کے لیے دوسرے پار جانا چاہتا ہے۔ اور اسے کہا کہ مجھے اپنے اوپر سے گزرنے دے۔

یہ کہہ کر اس نے اپنی بکریوں کو لیا اور دریا پر چلتا ہوا دریا پار کر گیا۔ دریا کے دوسری طرف کاعلاقہ گھاس سے بھرا پڑا ہوا۔ درختوں کے پتے بھی سلامت تھے۔ کیونکہ کسی کو یہاں تک آنے کی رسائی نہیں تھی۔ اس نے خوب اچھی طرح اپنی بکریوں کو سیر کروایا اور واپس لوٹ آیا۔

پھر یہ اس کا معمول بن گیا کہ وہ بکریاں پار چھوڑ کر واپس آ جاتا اور شام کو جا کر بکریاں واپس لے آتا۔ اس کی بکریوں کا وزن دگنا چوگنا ہو گیا۔ لوگ چونک گئے اور اس سے پوچھا کہ وہ اپنی بکریوں کو کیا کھلاتا ہے۔ وہ سیدھا سادھا اور صاف دل نوجوان تھا۔ اس نے صاف صاف بات بتا دی کہ جناب میں تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر دریا پر چل کر اپنی بکریاں دوسری طرف چروانے لے جاتا ہوں۔

یہ بات سب نے سنی مگر کسی نے اس چرواہے کی بات پر یقین نہیں کیا۔ کیونکہ یہ ناقابل یقین بات تھی۔ مگر بات ہوتے ہوتے مولوی صاحب کے پاس پہنچ گئی۔ مولوی صاحب نے اس چرواہے کو بلایا اور سارا ماجرا پوچھا۔

اس چرواہے نے مولوی صاحب کو ہی حوالہ بنا لیا کہ مولوی صاحب میں تو آپ کا شکریہ ادا کرنے والا تھا۔ آپ نے جمعہ کے خطبے میں جو نسخہ بتایا تھا کہ بسم اللہ کہہ کر دریا کو بھی حکم دو تو وہ بھی انکار نہیں کرتا۔ تو میں تو بس آپ کے نسخے پر ہی عمل کر رہا ہوں۔

 

 

مولوی صاحب حیرت سے اس کے چہرے کو دیکھتے رہے۔ مولوی صاحب نے کہا بھائی صاحب! ایسی باتیں تو ہم ہر جمعہ میں کرتے ہیں۔ فقط ان کا مقصد لوگوں کا ایمان بنانا ہوتا ہے۔ مگر بکریوں والا ڈٹا رہا کہ میں تو بس بسم اللہ کہہ کر پانی پر چلتا ہوں اور بکریوں سمیت پانی پار چلا جاتا ہوں۔

آخر کار مولوی صاحب نے صبح خود یہ تجربہ کرنے کی ٹھانی۔ جسے دیکھنے چرواہے سمیت پورا علاقہ بھی آگیا۔ مجمع زیادہ تھا۔ مولوی صاحب نے ایک دو بار سوچا کہ انکار کر دوں کہ کہیں ڈوب نہ جاؤں۔ مگر وہ جو مولوی صاحب کو کندھے پر اٹھا کر لائے تھے۔ اب بھی جوش و خروش سے اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے۔ اور مولوی صاحب کے حق میں تعریفیں کر رہے تھے۔

آخر کار مولوی صاحب نے اپنے ڈر کو دور کرنے کے لیے ایک رسہ منگوایا۔ پہلے اسے ایک درخت کے ساتھ باندھا پھر اپنی کمر کے ساتھ باندھا پھر ڈرتے ڈرتے ڈھیلا ڈھالا بسم اللہ پڑھا اور دریا پر چلنا شروع ہو گئے۔

مگر پہلا پاؤں ہی رکھا تھا کہ پانی میں گر گئے۔ مولوی صاحب ڈوبکیاں کھانے لگے اور پانی کے بہاؤ میں بہنا شروع ہو گئے۔ لوگوں نے کھینچ کھینچ کر باہر نکالا۔ مولوی صاحب کی اس حرکت نے چرواہے کو پریشان کر دیا کہ مولوی صاحب کی بسم اللہ کو یہ کیا ہو گیا ہے؟ کیونکہ اس کا یہ روز کا معمول تھا۔

اس کے اپنے یقین میں کوئی فرق نہ آیا۔ اس نے بسم اللہ کہہ کر بکریوں کو پانی کی طرف اشارہ کیا۔ اور خود ان کے پیچھے چلتا ہوا پار چھوڑ کر واپس بھی آگیا۔ لوگ اسے ولی اللہ سمجھ رہے تھے۔ اور اس کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ مگر وہ سب سے بے نیاز, سیدھا سادہ انسان تھا۔ وہ مولوی صاحب کے پاس پہنچا اور کہا۔

مولوی صاحب میں آپکی بسم اللہ کی تعریف سے کافی پریشان تھا۔ مگر پانی پر چلتے ہوئے مجھے آپ کی بسم اللہ کی بیماری کا پتہ چل گیا۔ اس چرواہے نے درخت سے بندھی رسی کی طرف اشارہ کیا اور کہا مولوی صاحب یہ ہے۔ آپ کی بسم اللہ کی بیماری آپ کی بسم اللہ کی برکت کو یہ رسہ کھا گیا۔

آپ کو اللہ اور بسم اللہ سے زیادہ اس رسے پر بھروسہ تھا۔ لہذا اللہ نے بھی آپ کو رسی کے حوالے کر دیا۔ پھر کہنے لگا مولوی صاحب آپ بھی کمال کرتے ہو۔ میں نے آپ کے منہ سے سنا اور یقین کر لیا اور میرے اللہ نے میرے یقین کی لاج رکھ لی۔

مگر آپ نے اللہ کا کلام سنا مگر یقین نہیں کیا۔ لہذا آپ کو اللہ نے رسوا کر دیا۔ محترم عزیز دوستو یہی کچھ ہمارا حال ہے۔ ہماری نمازوں اور دعاؤں کا حال بھی یقین سے خالی ہے

ایک کفن چور کا عجیب واقعہ

0

ایک کفن چور کا عجیب واقعہ

ایک کفن چور کا عجیب واقعہ

 

ایک کفن چور کا عجیب واقعہ ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہونے جا رہے تھے۔کہ راستے میں ان کی نظر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی نظر ایک شخص پر پڑی، جو مسلسل روئے جا رہا تھا۔

حضرت علی شیر خدا نے اس بندے سے رونے کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ میں بہت ہی بڑا گناہ کر بیٹھا ہوں۔ مجھے اللہ تعالی کے عذاب سے ڈر لگتا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میں کیا کروں۔

آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میری معافی کی سفارش فرما دیں۔ حضرت علی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ اس شخص کو ساتھ لے کر حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش ہوئے۔

جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گئے۔ تو حضرت علی زار و قطار رو رہے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا اے علی آپ کیوں رو رہے ہو؟

حضرت علی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے پاس آ ہی رہا تھا کہ راستے میں ایک شخص کو بہت ہی زیادہ روتا ہوے دیکھا۔

تو اس کی حالت دیکھ کر مجھے بھی رونا آگیا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا وہ شخص کہاں ہے؟ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ شخص باہر کھڑا ہے۔

 

 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو اندر آنے کی اجازت دی۔ تو وہ بندہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہو کر اتنا رویا اتنا رویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بندے سے پوچھا اے نوجوان کیا ہوا ہے؟ تم اتنا کیوں رو رہے ہو؟

اس نے جواب دیا یارسول اللہ مجھ سے بہت ہی بڑا گناہ ہو گیا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے یہ بتاؤ کہ تیرا گناہ بڑا ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت بڑی ہے۔

اس بندے نے عرض کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا گناہ بڑا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا گناہ بڑا ہے کہ خدا کی قدرت بڑی۔ اس نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا گناہ بڑا ہے۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تو نے شرک کا ارتکاب کیا ہے۔ بندے نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے شرک کا ارتکاب نہیں کیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو نے کسی بندے کو قتل کیا ہے۔

اس نے کہا کہ اے اللہ کے نبی میں نے کسی کو بھی قتل نہیں کیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم نے کون سا ایسا گناہ کیا ہے۔ جس کی وجہ سے تم اتنا زیادہ رو رہے ہو۔

پھر اس شخص نے اپنا سارا قصہ سنایا۔ اس نے کہا یارسول اللہ میں کئی سالوں سے کفن چوری کر رہا ہوں۔ میں مردوں کے کفن چوری کر کے ان کو فروخت کیا کرتا تھا۔ اس سے جو آمدنی ہوتی تھی اس سے اپنا پیٹ پالتا تھا۔

کہنے لگا کہ کچھ دن پہلے ایک لڑکی دفن کی گئی۔میں نے اپنی عادت کے مطابق اس کا کفن اتارا اور وہاں سے جانے لگا۔ تو مجھ پر شیطان غالب آگیا۔ اس نے میری نیت بدل دی۔ میں نے اس لڑکی کے ساتھ زنا کیا۔ جب میں زنا کر کے اٹھنے لگا تو میں نے ایک آواز سنی کہ جیسے وہ لڑکی بول رہی ہے۔

اے بدبخت بندے تو نے مجھے مردوں کے درمیان ننگا کیا۔ تو کل قیامت کے دن بدکاروں اور زانیوں میں تیرا شمار ہوگا۔ اللہ تجھے بھی سب کے سامنے ننگا کرے گا۔ وہ شخص کہنے لگا کہ اس لڑکی کی آواز کا مجھ پر ایسا اثر ہوا ہے کہ مجھے اب اپنے آپ پر اللہ تعالی کا غضب محسوس ہوتا ہے۔ میں خدا کی پکڑ میں ہوں۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا سارا قصہ سنا۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی آنکھیں نم ہو گئیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے واقعی بہت ہی بڑا گناہ کیا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے جب یہ الفاظ نکلے کہ یہ بہت ہی بڑا گناہ ہے۔

تو وہ شخص روتا ہوا باہر نکل گیا اس نے سوچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بہت ہی ناراض ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زبان مبارکہ سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے جو میری بربادی کا مزید سبب بن جائے۔ وہاں سے نکل کر وہ شخص جنگل اور پہاڑوں کی طرف چلا گیا۔

وہ شخص کئی روز اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول رہا اور اللہ تعالی سے رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہا۔ اس کو ہر وقت وہ آواز سنائی دیتی تھی وہ ہر وقت اللہ تعالی سے دعائیں مانگتا رہا۔

جب وہ شخص کئی روز معافی مانگتا رہا تو خدا نے اس بندے کی توبہ قبول فرمائی۔ اللہ تعالی کے حکم سے حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے۔ اور سلام پیش کیا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ مخلوق کو پیدا کرنے والا، رزق دینے والا اور اپنی مخلوق کو معاف کرنے والا بھی میں ہی ہوں۔

تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ میں نے اس نوجوان کی توبہ قبول فرما لی ہے۔ میں نے اس کے سارے گناہوں کو معاف فرما دیا ہے۔

پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صحابی کو اس شخص کے پاس بھیجا کہ اس شخص کے پاس جا کر اس کو یہ بتاؤ کہ اللہ تعالی نے تیری توبہ قبول فرمالی ہے۔ اللہ تعالی نے تیرے سب گناہوں کو معاف کر دیا ہے۔

Sister Quotes in Urdu

0

Top 15 Sister Quotes in Urdu

 

Sister quotes in Urdu are expressions that celebrate the special bond, love, and relationship between sisters. These quotes often capture the emotions, affection, and sometimes the playful rivalry that exists between siblings. They highlight the importance of sisters in each other’s lives, expressing gratitude, admiration, and the deep connection that sisters share. Here are a few examples:

1. “بہن وہ دوست ہے جو کبھی آپ کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔”
(“A sister is a friend who never leaves your side.”)

2. “بہنیں زندگی کی سب سے قیمتی نعمت ہوتی ہیں، جو ہر خوشی اور غم میں ساتھ دیتی ہیں۔”
(“Sisters are the most precious gift in life, standing by you in every joy and sorrow.”)

3. “بہن کا رشتہ دنیا کے ہر رشتے سے زیادہ مضبوط اور خوبصورت ہوتا ہے۔”
(“The bond with a sister is stronger and more beautiful than any other relationship in the world.”)

4. “ایک بہن ہمیشہ آپ کی ہمت بڑھاتی ہے اور زندگی کے ہر موڑ پر آپ کا سہارا بنتی ہے۔”
(“A sister always encourages you and becomes your support at every turn in life.”)

5. “بہنیں دل کی سکونت اور زندگی کی خوشی کا ذریعہ ہوتی ہیں۔”
(“Sisters are the source of peace for the heart and joy in life.”)

These quotes are used to express the deep love and appreciation one feels for their sister, often shared on special occasions or simply to remind a sister how much she is valued.

Sister is someone, you can continually uninhibitedly talk, You can impart your most profound sentiments to her. The in the middle between them is simply amazing · Kin, be it more young or more seasoned, continuously acquire satisfaction our lives and we continually like them.
We (Urdu Citation) partake in that we presents to you the best Statements with respect to kin. We want to believe that you partake in this blog entry. Generously share these sister costs gauge in urdu on your virtual entertainment destinations.

we have additionally assortment of Inspirational quotes , beautiful quotes and numerous others.

 

Sister Quotes in Urdu

 

پوری دنیا بھی آپ کا ساتھ چھوڑ دے مگر آپ کی بہن ہمیشہ آپ کے ساتھ ہوگی ۔

 

 

بہنوں کو سب سے زیادہ رولاتے بھی بھائی ہیں اور ہنسانے بھی بھائی ہیں ۔

 

 

بہن چھوٹی ہو یا بڑی ہمیشہ اپنے بھائی کا خیال رکھتی ہے ۔

 

 

بھائیوں کے حق مانگی ہوئی بہنوں کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی ۔

 

 

بھائی بہن کی ڈھال ہوتا ہے چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے پتا ہوتا ہے کہ اس کی بہن اس کی ذمہ داری ہے ۔

 

 

دنیا کا سب سے خوبصورت رشتہ بھائی بہن کا ہوتا ہے ۔

 

 

بھائی وہ ہوتے ہیں جن کے دل میں ہمیشہ اپنی بہن کے لئے پیار رہتا ہے ۔

 

 

ایک بہن کے لئے سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہوتی ہے کہ جب اس کا بڑا بھائی کہتا ہے تو بلکل اپنے بڑے بھائی پر گئی ہو ۔

 

 

بھائی اپنی بہن سے چاہے کتنی ہی لڑائی کیوں نہ کرلے لیکن اپنی بہن کی آنکھ میں آنسو تک نہیں دیکھ سکتا ۔

 

 

بھائی اور بہن کے درمیان اگر لڑائی نہ ہو تو زندگی بہت بورنگ لگتی ہے ۔

 

 

خوش نصیب ہے وہ بھائی جس کی بہن اس کو اپنی جان سے بھی زیادہ پیار کرتی ہے ۔

 

 

میرے دل کی یہی دعا ہے جن لمحوں میں تو مسکراتی ہے وہ لمحے کبھی ختم نہ ہوں ۔

 

 

بہت یاد آتی ہیں، بہنیں جب پرائ ہو جاتی ہیں

 

 

بہن سے بڑھ کے ہمیں کوئی نہیں سمجھ سکتا، بہنیں ہی ہماری اچھی دوست ہوتی ہیں ۔

 

 

گھر کی قدر

0

گھر کی قدر

 

گھر کی قدر

 

گھر کی قدر مجھے میرے احساس نے ماردیاتھا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ زندگی کی کوئی خوشی میرے پاس نہیں تھی۔ پریشان ہو کر رہ گیا تھا۔ دولت تو بہت دور کی بات ہے، کوئی گیسو کسی آنچل کا سہارا بھی نہیں تھا۔ اس ناامیدی کی کیفیت میں اپنے ایک جاننے والے اطہر بھائی سے ملاقات ہوگئی ۔ وہ ایسے آدمی تھے جن کو میں نے ہمیشہ خوش ہی دیکھا تھا۔ میں نے جب ان سے ان کی ہر دم خوشی کا راز پوچھا تو انہوں نے جواب دیا بہت آسان تھا۔ میاں ایک شعر شن لو۔اسی میں راز چھپا ہوا ہے۔ چلیں سنا دیں ۔ میں نے بے دلی سے کہا۔ خوشی کی جستجو دراصل غم ہے ۔ خوشی کو چھوڑ دے غم بھی نہ ہوگا ۔‘ انہوں نے شعر سنا دیا۔ شعر واقعی بہت اچھا تھا اور ایک فارمولہ بتا دیا گیا تھا کہ اس پرعمل کر جاؤ تو سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔ اطہر بھائی۔ شعر تو بہت اچھا ہے۔ میں نے تعریف کی۔ میاں فارمولہ بھی اچھا ہے ۔ تم ابھی سے اس پر عمل کرو۔ ایک ہفتے کے بعد آ کر بتاؤ۔ کیا ہوا؟ میں اطہر بھائی کے پاس ایک خاص کام سے گیا تھا۔ اس دن میری جیب میں کچھ بھی نہیں تھا۔ میں نے یہ سوچا تھا کہ میں اطہر صاحب سے ایک ہزار روپے لے لوں گا ۔اس کے بعد وہیں سےٹیکسی کر کے راستے سے کھانے پینے کی چیز یں لے کر گھر واپس آ جاؤں گا۔ کم از کم دو دنوں تیک کا خرچ چل ہی جاۓ گا۔ گھر میں کوئی نہیں تھا۔ ابھی تک شادی نہیں ہوسکی تھی۔ اب یہ بتاؤ کہ اگر ہزار روپے مل جا ئیں تو تم خوش ہوجاؤ گے؟ظاہر ہے اطہر بھائی ۔اس سے کئی کام نکل جائیں گے- تو بس میں تمہیں پیسے نہیں دے رہا۔ تم کو ابھی سے اس فارمولے پر عمل کرنا ہے ۔ دیکھ لینا تم نے اس شعر کو اپنے ذہن میں اتارلیا تو پھر تمہیں کوئی غم بھی نہیں ہوگا۔“ میں ان سے پیسے لیے بغیر اس شعر کی سوغات لے کر واپس آ گیا۔ گھر آ کر مجھے نفیسہ کا خیال آیا۔ میں نے نفیسہ نام کی ایک لڑکی سے محبت کی تھی جو یہ چاہتی تھی کہ میں اس کے باپ سے جا کر ملوں۔ میں نے اسے ایک شعر بھی سنایا تھا۔ میری حیات کی راہوں میں پیچ وخم ہیں بہت می خوب سوچ لے پہلے جو میرے ساتھ چلے نفیسہ کے باپ سے ملاقات کو میں ابھی تک ٹال رہا تھا لیکن اب ان سے ملنا ضروری ہو گیا تھا۔ وہ ایک اعلیٰ سرکاری آفیسر تھے۔ ان کے ذریعے کوئی جاب بھی ہوسکتی میں نے نفیسہ کو فون کر کے کہا۔ ”میرا خیال ہے کہ میں تمہارے ابو سے جا کر مل ہی لوں۔ ہاں ہاں چلے جاؤ۔ اس نے کہا۔” میں نے ابو سےبات کی ہوئی ہے۔بس ان کو تمہارے آنے کا انتظار ہے۔ وہ تمہارا انتظار ہی کر رہے ہیں ۔ تم ان سے جا کر مل لو ۔“ نفیسہ کے والد ایک اعلی سرکاری عہدے دار تھے۔ بہت دھاک تھی ان کی ۔ ان کے پاس جاتے ہوۓ جھجک ی ہورہی تھی لیکن نفیسہ نے مجبور کر کے مجھے ان کے دفتر بھیج دیا۔ اس نے اپنے ابو سے میرے بارے میں بات کر لی تھی۔ میں دوسرے دن بہترین ڈریسنگ کر کے ان کے پاس پہنچ گیا۔ وہ اپنی پوری شان کے ساتھ اپنے کمرے میں ہی تھے۔آؤ صاحب زادے، آؤ۔نفیسہ نے مجھے تمہارے بارے میں بتا دیا تھا۔ جی جناب ۔ میں اس سے زیادہ کیا کہ سکتا تھا۔ بیٹھ جاؤ ۔ انہوں نے سامنے والی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ میں مؤدب ہو کر سامنے بیٹھ گیا۔ زندگی میں پہلی بارایسا انٹرویو دے رہا تھا۔ تم خدانخواستہ میری بیٹی سے عشق تو نہیں کرنے لگے ہو؟ انہوں نے ایک ایسا سوال کیا کہ میں چکرا کر رہ گیا۔ میرا خیال ہے کہ کسی بھی باپ نے براہ راست ایسا سوال ہونے والے داماد سے بھی نہیں کیا ہوگا۔ شرمانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں یا نہ میں جواب دو۔ عشق کیا جناب ، بس نفیسہ مجھے بہت پسند ہے ۔ میں اسے ہر حال میں خوش رکھوں گا ۔ میرا خیال ہے کہ ابھی ہماری گفتگو اتنی آگے نہیں بڑھی کہ تم خوش رکھنے یا نہ رکھنے کی بات کرو۔ انہوں نے کہا۔ میں ایک بار پھر چکرا کر رہ گیا۔ عجیب بے دھڑک انسان تھے۔ کام کیا کرتے ہو؟ انہوں نے پوچھا۔ جاب کی تلاش میں ہوں جناب ۔ میں نے کہا۔  مجھے امید ہے کہ بہت جلد کوئی ملازمت مل ہی جاۓ گی ۔ اور اس وقت تک کیا اپنی بیوی کو بھوکا رکھو گے؟“ نہیں جناب، سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ جو خود کھاؤں گا اس کو بھی کھلاؤں گا ۔“ جب تمہارے پاس خود کھانے کونہیں ہے تو اس کو کہاں سے کھلاؤ گے؟ ” اس کی فکر نہ کر یں۔ شادی کے بعد نفیسہ میرا مسئلہ ہوگی۔“ لیکن شادی سے پہلے تک تو میرا مسئلہ ہے نا؟ اور میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں تم جیسے نا کارہ انسان سے اپنی بیٹی کی شادی نہیں کر سکتے ۔ میرے سینے پر پر چھیاں ہی چل کر رہ گئیں۔ نفیسہ میرے لیے سب کچھ تھی۔ زندگی میں اب تک سواۓ محرومیوں کے اور کیا ملا تھا۔ کوئی خوشی نہیں۔ اب وہ بھی ہاتھ سے چلی گئی تھی۔ دل چاہا کہ در و دیوار سے لپٹ لپٹ کر آنسو بہاؤں۔ اور اسی وقت اطہر بھائی کا شعر یاد آ گیا۔ خوشی کی جستجو دراصل غم ہے ۔خوشی کو چھوڑ دے تم بھی نہ ہوگا ۔“ کلیجے میں ٹھنڈک کی پڑ گئی۔نفیسہ نہیں ملتی ناسہی اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ میں کیوں ایک روگ پال کر بیٹھ جاؤں ۔خوشی کو چھوڑ دے۔اور میں نے خوشی کو چھوڑ دیا۔ میں نے نفیسہ کو فون کر کے مطلع کر دیا تھا کہ میں زندگی کی راہ میں اس کا ہم سفر نہیں بن سکوں گا۔ وہ کچھ دیر کی بک بک کے بعد خاموش ہوگئی۔شاید اسے بھی احساس ہوگیاتھا کہ اس کے باپ کا فیصلہ درست ہی تھا۔ اب زندگی کے کٹھن شب وروز میرے سامنے تھے۔ گھر میں کھانے کو بھی کچھ نہیں تھا۔ میں بھی بھی اپنا کھانا خود ہی بنالیا کرتا تھا۔ ورنہ عام طور پر سامنے والے ہوٹل سے جا کر کھا لیتا تھا- میں محلے کی دکان پر پہنچ گیا۔ دکان دار مجھے دیکھ کر خوش ہو گیا تھا۔ شاید اسے خیال آیا ہو کہ میں اس کا پچھلا قرض ادا کر نے آیا ہوں- تنویر بھائی, چاۓ تو چلے گی نا؟ اس نے پوچھا۔ بس دومنٹ میں آ جاۓ گی ۔ نہیں بھائی ، مجھے اس وقت چاۓ کی ضرورت نہیں ، میں نے کہا۔ ” مجھے تو بس دوکلو آٹا۔ ایک کلو چینی کھانےکا تیل دے دو ۔ ابھی لو۔ پچھلا حساب تو لے کر آۓ ہوتا ؟ نہیں بھائی، میں تو یہ بھی ادھار لے کر جاؤں گا۔ میں نے کہا۔ اچانک وہ بھڑک اٹھا۔ اس کی خوش اخلاقی ختم ہوگئی۔ رہنے دو بھائی رہنے دو۔ کمال ہے پچھلا قرض ادانہیں کیا اور چلے آرہے ہیں ادھار لینے ۔ اب کیا اس محلے میں بے وقوف بنانے کو ایک میں ہی رہ گیا ہوں۔ جاؤ بھائی کوئی اور دکان ڈھونڈو۔ اس کی بک بک سن کر بہت دکھ ہوا۔ سوچا تھا کہ سامان مل جاۓ گا تو دو چار وقتوں کے کھانے ایک ساتھ بنا کر رکھ لوں گا اچانک ایک بار پھر اطہر بھائی کا شعر یاد آ گیا۔ خوشی کی جستجو در اصل تم ہے۔ خوشی کو چھوڑ دے غم بھی نہ ہوگا ۔۔ میں نے خوشی چھوڑ دی اور کچھ لیے بغیر ہی واپس آ گیا۔ ہشاش بشاش کوئی غم نہیں تھا۔ دل پر کوئی بوجھ نہیں تھا۔ گھر کے دروازے ہی پر نیازی صاحب کھڑے ہوۓ دکھائی دے گئے۔ نیازی صاحب اپنی نوعیت کے ایک کمال انسان ہیں ۔ بہت خوش اخلاق اور بہت ہی شاہ خرچ ۔ انہوں نے ہمیشہ میری مدد کی ہے۔ ان کو دیکھ کر ایسالگا کہ خدا نے اس وقت فرشتہ بھیج دیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ نیازی صاحب نے میرا کس کس موقع پر ساتھ دیا تھا۔ جس کوارٹر میں رہ رہا ہوں اس کا ایڈوانس بھی نیازی صاحب نے دیا تھا۔ میں ان سے جا کر لیٹ گیا۔ بھائی اچانک کیسے آگئے؟ میں نے پوچھا۔ وبس تنویر صاحب! تمہاری یاد آئی تو تم سے ملنے چلا آیا۔ انہوں نے کہا۔ ”ارے یہ تو میری خوش نصیبی ہے۔ آئیں اندر آئیں۔ ہم اندر آ کر بیٹھ گئے۔ میں نے محسوس کیا کہ نیازی صاحب کچھ الجھے ہوئے تھے ۔ گھر میں اتنا چاۓ کا سامان تھا کہ دو چار کپ چاۓ بن سکتی تھی۔ میں نے انہیں چاۓ لا کر دی۔ کچھ دیر کے بعد انہوں نے کہا۔ تنویر صاحب, میں ایک عجیب کشمکش میں ہوں۔“ خیریت تو ہے، کیا ہوا؟ میں نے پوچھا۔ ہا۔ یہ ظاہر خیریت ہے لیکن اپنے وجود میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے۔ کیسی ہلچل ؟ بھئی بات میں ہے کہ میں لوگوں کا ساتھ دیتارہا ہوں ۔ آج بھی اس ارادے سے گھر سے نکلا ہوں لیکن ایک عجیب بات ہے۔ وہ کیا؟ میرا دل دھڑکنے لگا۔ بات یہ ہے کہ کسی کی مدد یا کسی کے کام آجانا میری خوشی رہی ہے۔ میں احسان تو نہیں کہتا کیونکہ اس میں میری خوشی ہے لیکن ہوا یہ کہ جن کو میں نے اپنے طور پر خوشیاں دیں۔ انہوں نے غم دیے۔ ایک قول ہے کہ جس پر احسان کرو، اس کے شر سے بچو۔ میں خوشی کی جستجو میں رہتا تھا اور ایسی خوشی مجھے کسی کے کام آ کرہی ملتی تھی ۔ آج بھی گھر سے پچاس ہزار لے کر نکلا ہوں۔“ ارے نیازی صاحب! یہ تو آپ کی بڑائی کی دلیل ہے۔ ورنہ اس زمانے میں کون کسی کا ساتھ دیتا ہے۔ انہوں نے باتوں باتوں میں مجھے ایک شعر سنادیا۔“ واہ۔ یہ تو اچھی بات ہوئی ۔ویسے وہ شعر کیا تھا؟“ تنویر صاحب ۔ یقین کر یں کہ اس شعر کو سنتے ہی ایسا لگا کہ میرے سرسے سارے بوجھ اتر گئے ہوں۔ سمجھ میں آ گیا کہ میں کہاں بھٹک رہا ہوں ۔ ” واہ صاحب۔ پھر تو بہت مبارک شعر ہوا۔ مجھے بھی سنائیں۔ شعر ہے۔

خوشی کی جستجو دراصل غم ہے۔

خوشی کو چھوڑ دے غم بھی نہ ہوگا۔

ایک بار پھر وہ لعنتی شعر میرے سامنے آ گیا تھا۔ ایک بات میں آپ سے کہنے آیا ہوں۔ نیازی صاحب نے کہا۔ ہوسکتا ہے کہ میں نے اب تک آپ کا ساتھ دیا ہو لیکن اب میں کچھ بھی نہیں کر سکوں گا۔ کیونکہ اس شعر کا مفہوم سمجھ میں آ گیا ہے۔ ارے نیازی صاحب ۔ میں بوکھلا کر بولا ۔لعنت بھیجیں اس شعر پر ۔ آپ تو نیکی کیے جائیں ۔ نہیں تنویر صاحب۔ اب اس قسم کی کوئی نیکی میں نہیں کر سکوں گا ۔ اس انقلابی شعر نے میری سوچ بدل دی ہے۔ میں یہی کہنے حاضر ہوا تھا۔ دل چاہا کہ یا تو اپنا گلا گھونٹ لوں یا اس شاعر کوزہر دے دوں جس نے بی شعر کہا ہوگا۔ نیازی صاحب کچھ دیر بیٹھ کر اس شعر پر لیکچر دے کر روانہ ہو گئے اور میں اپنے خالی پیٹ پر ہاتھ پھیرتا رہ گیا۔ خیر وہ دن تو کسی نہ کسی طرح گزار لیا۔شام کو بھوک نے جب بے تاب کیا تو میں اپنی خالہ کے پاس چلا گیا۔ وہ بھی اسی شہر میں اور میرے گھر سے کچھ فاصلے پر رہتی تھیں۔ وہ کباب بہت اچھےبناتی تھیں ۔ ان کے کباب کھا کر لطف آجا تا تھا۔ خالہ مجھے دیکھتے ہی خوش ہو گئیں ۔ ارے بیٹا تو بالکل صحیح وقت پر آیا۔ میں نے تیری پسند کے کباب بنائے ہیں۔“ کیا بات ہے خالہ آپ کی ۔ میں خوش ہو گیا خالہ ہو تو آپ جیسی ہو میں ایک طرف بیٹھ گیا۔ سوچ رہا تھا کہ کتنی دیر بعد کچھ کھانے کو ملے گا ۔ اس دوران وہی شعر میرے کان میں گونجنے لگا۔ ۔ خالہ میں نے آواز لگائی۔ خالہ میں جارہا ہوں۔ ایک کام یاد آ گیا ہے۔ ارےبیٹا کیاب تو کھا تا جا۔ انہیں خالہ پھر سہی اور میں اس مکان سے باہر آ گیا۔ باہر آتے ہی بھوک سے چکر سا آ گیا تھا ایک درخت کا سہارا لے کر کھڑا ہو گیا۔ اس وقت کسی نے مجھے آواز دی۔ ارے تنویر صاحب کہاں کھڑے ہیں؟ کیسے میں اسلم صاحب؟” میں نے پوچھا۔ کیا بتاؤں ؟ دل میں کیسی ہلچل مچی ہوئی ہے ؟ خیریت تو ہے نا کیا ہوا؟ موصوف شاعر بھی تھے۔ میرے پاس آکر بولے۔ خدا کی ۔ اس وقت کچھ اور مانگ لیتا تو شاید بھی مل جاتا۔ قبولیت کی گھڑی تھی لیکن میں نے آپ کو مانگا اور آپ مل گئے ایک بہت زبردست غزل رات کو کہی ہے۔ ایک مشاعرے میں پڑھنی ہے۔ لیکن میرا یہ دستور ہے کہ مشاعرے سے پہلے میں اپنے کسی دوست کو سنا کر دار لے لیتا ہوں ۔ تا کہ کچھ ہو گیا ہو تو وہ اصلاح کر دہے ۔ ارے صاحب میں اس قابل کہاں ہوں۔ میں گھبرا کر بولا ۔ شعرزده یہ کیا بات کر دی۔ آپ جیسا باذوق اور کہاں لے گا۔ چلیں سامنے والے ہوٹل میں بیٹھ جاتے ہیں۔ آپ بھی کہیں گے کہ کس مشکل زمین میں غزل کہی ہے۔ چلیں۔ انہوں نے میرا ہاتھ تھام لیا۔اب میں جا بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ مجھے اپنے ساتھ ہوٹل میں لے آۓ ،انہوں نے دو چاۓ کے آرڈر کے ساتھ کچھ بسکٹ بھی منگوا لیے۔ اس وقت مجھے پیٹ میں کچھ سہارے کی شدید ضرورت بھی تھی۔ بسکٹ سامنے آئے اور اسی وقت وہ کم بخت شعر یاد آ گیا۔ اس وقت خالی پیٹ کچھ کھانا میرے لیے بہت ضروری ہو گیا تھا۔ ورنہ میں بے ہوش ہی ہو جاتا۔ لیکن پھر وہی شعر خوشی کو چھوڑ دے غم بھی نہ ہوگا۔ اس موقع پر بھی اس شعر نے میرا پیچھانہیں چھوڑا۔ لیں جناب۔“ اسلم صاحب نے بسکٹوں کی طرف اشارہ کیا۔ آپ کیوں یوں ہی بیٹھے ہیں؟“ نہیں اسلم صاحب۔ اس وقت کچھ نہیں لے سکوں گا۔ میرے پیٹ میں کچھ گڑ بڑ ہے۔“ “اوہو۔ پیٹ میں گڑ بڑ ہے تو آپ کو چاۓ بھی نہیں پینی چاہیے۔ جی جی ہاں۔ میری جان نکلی جارہی تھی۔ انہوں نے ایک لمحہ انتظار کے بغیر ایک چائے کا آرڈر کینسل کر دیا اور خود چاۓ اور بسکٹ کھانےلگے ۔ جبکہ میرا یہ حال تھا کہ میں غم اور خوشی کے فلسفے میں پھنسا ہوا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی جیب سے کچھ کاغذات نکالے اور اپنی بے تکی غزل سنانے لگے۔ ایک تو غزل بے تکی۔ پھر اتنی طویل جیسے پوری اردو شاعری لکھ کر لے آۓ ہوں۔ میں کچھ دیر تو بہت حوصلے سے سنتا رہا۔ پھر آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا اور میں بے ہوش ہو کر لڑھک گیا۔ ۔ اسلم صاحب مجھے پکار رہے تھے۔ کچھ اور آوازیں بھی تھیں۔ میرے منہ پر پانی کے چھینٹے دیے جارہے تھے لیکن مجھے ہوش نہیں تھا۔ نہ جانے کتنی دیر بعد ہوش آیا ہوگا۔ میں ایک بستر پر لیٹا تھا۔ نقاہت تو تھی لیکن اتنی نہیں جتنی پہلے محسوس ہورہی تھی۔ میرے بستر کے آس پاس کچھ اور بستر بھی تھے۔ جن پر مریض لیٹے ہوۓ تھے۔ مجھے ہوش میں دیکھ کر ایک مہربان صورت کی نرس میرے پاس آ گئی۔ اب کیسی طبیعت ہے؟ اس نے پوچھا۔ کون لایا ہے مجھے؟ تم کہیں بے ہوش ہو گئے تھے۔ لوگ اٹھا کر لائے لوگ لائے ہیں ؟ کمزوری کی وجہ سے یہ حال ہو گیا ۔ ڈاکٹر صاحب کا بھی یہی خیال تھا۔ تم اب ٹھیک ہو تو جاسکتے ہو لیکن کس کمبخت کا دل تھا کی وہاں سے جائے اس لیے وہیں پڑا سوچتا رہا کہ اس طرح کیسے گزر بسر ہو گی – اچھا تھا کہ گاؤں میں ہی رہتا – ابّا کی بات مان لیتا اور آنسہ سے شادی کر لیتا – کیا ہواجو وہ میٹرک پاس تھی – ابھی بھی کچھ نہ بگڑا تھا اس لیے ہسپتال سے نکل کر سیدھا پانچ سال بعد گھر پہنچا اور ابّا کے قدموں می سررکھ دیا – جوان بیٹے کو سینے سے لگانے میں دیر انہوں نے بھی نہیں کی تھی – ابھی تو کھڑی ٹیکسی کا کرایہ بھی ادا کرنا تھا اور امی کے ہاتھ کا بنا کھانا میز پر منتظر تھا – کیا ہے نا خالی شعرکہنے اور سننے سے پیٹ نہیں بھرتا – اب گھر میں سب کے ساتھ سکوں سے رہوں گا اور ابا کے ساتھ زمینوں پر جایا کروں گا – جوانی میں جاب کرنے اور خود سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا جنوں بھی ختم ہو گیا اور دوستوں کی مصیبت میں دوستی بھی دیکھ لی-

Love Quotes in Urdu

0

20 Love Quotes in Urdu

Love quotes in Urdu are poetic and expressive sayings that capture the feelings of love, affection, and romance. These quotes often convey deep emotions, portraying the beauty and intensity of love in a lyrical and heartfelt manner. They can express a wide range of sentiments, from the joy of being in love to the pain of separation, making them relatable to anyone who has experienced love.

Urdu, known for its rich literary tradition, is especially suited for expressing deep emotions, making love quotes in this language particularly impactful. Here are a few examples of love quotes in Urdu:

1. “محبت کرنے والے دلوں کی زبان خاموش ہوتی ہے، مگر ان کی دھڑکنیں بولتی ہیں۔”
(“The language of loving hearts is silent, but their heartbeats speak.”)

2. “تمہارے بغیر یہ زندگی ادھوری سی لگتی ہے، جیسے کوئی خواب بغیر رنگوں کے۔”
(“Without you, life feels incomplete, like a dream without colors.”)

3. “محبت وہ جذبہ ہے جو دل کو روشنی دیتا ہے اور زندگی کو خوبصورت بناتا ہے۔”
(“Love is the emotion that lights up the heart and makes life beautiful.”)

4. “تمہاری مسکان ہی میری زندگی کا سکون ہے، جو میرے دل کو راحت بخشتی ہے۔”
(“Your smile is the peace of my life, bringing comfort to my heart.”)

5. “محبت کا سفر طویل ہو یا مختصر، ہر لمحہ خوشیوں سے بھرا ہوتا ہے۔”
(“Whether long or short, the journey of love is filled with joy at every moment.”)

6. “تمہارے نام سے ہی دل کو راحت ملتی ہے، جیسے دل کا سکون تم میں بسا ہو۔”
(“Just the mention of your name brings comfort to my heart, as if peace resides within you.”)

7. “محبت وہ راز ہے جو صرف دل کی گہرائیوں میں پنپتا ہے اور آنکھوں میں جھلکتا ہے۔”
(“Love is the secret that grows deep within the heart and shines through the eyes.”)

8. “تمہاری قربت میں دنیا کی ساری خوشیاں مل جاتی ہیں، جیسے محبت ہی جنت ہو۔”
(“In your presence, all the joys of the world are found, as if love itself is paradise.”)

9. “محبت کا ہر لمحہ قیمتی ہوتا ہے، جو دل کو زندگی کی خوبصورتی کا احساس دلاتا ہے۔”
(“Every moment of love is precious, reminding the heart of life’s beauty.”)

10. “تمہارے ساتھ گزری ہوئی باتیں یادوں میں مہکتی ہیں، جیسے خزاں میں بہار کا جھونکا ہو۔”
(“The moments spent with you linger in memories like a breath of spring in autumn.”)

These quotes are often shared to express love and affection in a poetic and meaningful way, making them popular in conversations, poetry, and social media.

Love Quotes in Urdu

 

نہ جانےکون تھاکہاں سےآیاتھا

جو انوار کودیوانہ بنا گیا ہے

 

 

پھر کہی بھی پناہ نہیں ملتی

محبت جب بے پناہ ہوجائے

 

+

انوار نہ کر جیت کی لگن اب

جانے کب کا ہے تو ہار آیا

 

 

آتے آتے میرا نام سا رہ گیا

اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا

 

 

کہاں سے لاؤں ہر روز اک نیا دل

توڑنے والوں نے تو تماشہ بنا رکھا ہے

 

 

تو میں بھی خوش ہوں کوئی اس سے جا کے کہہ دینا

اگر وہ خوش ہے مجھے بے قرار کرتے ہوئے

 

 

ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور

عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تُو مگر کہاں

 

 

‏اپنے میں مگن ہیں، سبھی کو اپنا ہی غم ہے

بے زار میں اپنوں سے، پرایوں سے ہوا ہوں

 

 

خود میں تو سنجیدہ ہوں پر

دُنیا کے لیئے مزاق ہوں میں

 

 

‏وہ کہتے ہیں عشق کی وضاعت کریں

ہم کہتے ہیں فقط محبوب کی اطاعت کریں

 

 

‏سو بار چمن مہکا، سو بار بہار آئی

دنیا کی وہی رونق، دل کی وہی تنہائی

 

 

موسم زرد میں ایک دل کو بچاؤں کیسے

ایسی رت میں تو گھنے پیڑ بھی جھڑ جاتے ہیں

 

 

‏تتلیاں پکڑنے میں دور تک نکل جانا

کتنا اچھا لگتا ہے پھول جیسے بچوں پر

 

 

جانے کہاں بسے گی تُو

جانے کہاں رہوں گا میں

 

 

تجھی پر کچھ اے بت نہیں منحصر

جسے ہم نے پوجا خدا کر دیا

 

 

.‏لوگ اکڑ کر ایسے جیتے ہیں

جیسے آبِ حیات پیتے ہیں

 

 

یہ جو مہلت جسے کہے ہیں عمر

دیکھو تو انتظار سا ہے کچھ

 

 

‏عشق نے غالبؔ نکما کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

 

 

‏تم سلامت رہو ہزار برس ہر برس

کے ہوں دن پچاس ہزار

 

 

میرا ہی نہیں، تمہارا بھی ہے یہی حال

اب بھی میرے دیدار کو ترستے تم ہو