Home Blog Page 4

Sister Quotes in Urdu

0

Top 15 Sister Quotes in urdu

 

Sister quotes in Urdu are expressions that highlight the unique and cherished bond between sisters. These quotes often reflect on the love, care, support, and friendship that sisters share. They can range from playful and affectionate to deep and emotional, capturing the essence of the sisterly relationship. Here are a few examples of sister quotes in Urdu:

Sister is someone, you can continually uninhibitedly talk, You can impart your most profound sentiments to her. The in the middle between them is simply amazing · Kin, be it more young or more seasoned, continuously acquire satisfaction our lives and we continually like them.
We (Urdu Citation) partake in that we presents to you the best Statements with respect to kin. We want to believe that you partake in this blog entry. Generously share these sister costs gauge in urdu on your virtual entertainment destinations.

1. “بہن کے بغیر زندگی ادھوری ہے، وہ محبت اور دوستی کی مجسم ہے۔”
(“Life is incomplete without a sister; she embodies love and friendship.”)

2. “بہن وہ دوست ہے جو کبھی آپ کو چھوڑ نہیں سکتی، چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے۔”
(“A sister is a friend who will never leave you, no matter how the world changes.”)

3. “بہن دل کی گہرائیوں میں بسنے والی ایک سچی ساتھی ہے۔”
(“A sister is a true companion who resides deep within the heart.”)

4. “بہنوں کا رشتہ انمول ہوتا ہے، وہ ایک دوسرے کا سایہ ہوتی ہیں۔”
(“The bond between sisters is priceless; they are each other’s shadow.”)

5. “بہن وہ تحفہ ہے جو قسمت سے ملتا ہے، اور اس کا ساتھ ہمیشہ دل کو سکون دیتا ہے۔”
(“A sister is a gift from fate, and her presence always brings peace to the heart.”)

These quotes beautifully express the emotions tied to sisterhood, celebrating the special connection that sisters share.

we have additionally assortment of Inspirational quotes , beautiful quotes and numerous others.

 

Sister Quotes in Urdu

 

دنیا کی سب سے انمول چیز بہن کا پیار ہوتا ہے

 

 

میرے دل کی یہی دعا ہے جن لمحوں میں تو مسکراتی ہے وہ لمحے کبھی ختم نہ ہوں ۔

 

 

بہن کی شادی کی خوشی تو بہت ہوتی ہے لیکن اس سے بچھڑنے کا دکھ اس خوشی سے کہیں زیادہ ہوتا ہے ۔

 

 

اگر پوری دنیا بھی آپکا ساتھ چھوڑ دیں آپ کی بہن ہمیشہ آپ کے ساتھ ہوگی

 

 

دور ہو جانے سے بہنوں کا پیار کبھی کم نہیں ہوتا۔

 

 

بہت یاد آتی ہیں بہنیں جب پرائی ہوجاتی ہیں

 

 

میری بہن ایسی ہے جس سے میں ناراض ہو کر ایک دن بھی خوش نہیں رہ سکتی یا اللہ میری بہن کو دنیا کی تمام خوشیاں دینا۔

 

 

بہن سے بڑھ کہ ہمیں کوئی نہیں سمجھ سکتا بہن ہی ہماری اچھی دوست ہوتی ہے

 

 

خوش نصیب ہے وہ بھائی ! جس کی بہن اس کو اپنی جان سے بھی زیادہ پیار کرتی ہے ۔

 

 

بہنوں کا دل مت توڑا کرو کیونکہ ان کا دل موم کی طرح ہوتا ہے

 

 

بچپن میں بہنیں اپنے حصے کی جمع پونجی اپنے بھائیوں پر نچھاور کر دیتی ہیں اور جب بڑی ہو کر دوسرے گھر چلی جاتی ہیں، وہی بھائی اپنی بہنوں کا بازو بن جاتے ہیں اور ہر مشکل میں اپنی بہنوں کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں

 

 

اے میرے پیارے رب ! میری دعاؤں میں اتنا اثر کردے کہ میری بہنوں کا دامن خوشی سے بھرا رہے ان کے راستے میں کوئی بھی رکاوٹ ہو اسے دور کر دے سدا ان کے سر پر رحمت کا سایہ کردے۔

 

اے میرے پیارے رب ! میری دعاؤں میں اتنا اثر کردے کہ میری بہنوں کا دامن خوشی سے بھرا رہے ان کے راستے میں کوئی بھی رکاوٹ ہو اسے دور کر دے سدا ان کے سر پر رحمت کا سایہ کردے۔

 

بہن ! کہنے کو تو ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر یقین جانو ! اس میں اتنا پیار بھرا ہوتا ہے کہ کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔

 

 

بہنیں تو ایک دوسرے کی جان ہوتی ہیں اسی لیے ہر سکھ دکھ میں ساتھ ہوتی ہیں

Love Story of a Poor Man

0

Love Story of a Poor Man

کوئی امید نہیں تھی

 

ایک لڑکا جس کا نام بلال تھا۔

اسماء نام کی لڑکی

بلال ایک نوجوان لڑکا تھا جو اپنے والد کے ساتھ ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا

وہ اپنے نرم دل اور مددگار طبیعت کے لیے مشہور تھے

اپنی خراب مالی حالت کے باوجود، بلال کا ہمیشہ مثبت رویہ تھا اور

اسے یقین تھا کہ ایک دن اس کے ساتھ اچھی چیزیں رونما ہوں گی۔

ایک دن بلال کی ملاقات اسماء نام کی ایک خوبصورت لڑکی سے ہوئی

جو اپنے والد کے ساتھ گاؤں آئی تھی

اسماء بلال کے مثبت رویے اور مہربان دل سے مسحور ہو گئیں

وہ جلدی سے دوست بن گئے اور ساتھ وقت گزارنے لگے۔

تاہم عاصمہ کے والد کو ان کی دوستی منظور نہیں تھی۔

اس نے سوچا کہ بلال اپنی بیٹی کےلیے اچھا نہیں ہے اور اس نے اسے دوبارہ ملنے سے منع کردیا۔

عاصمہ دل شکستہ تھی لیکن اپنے والد کی خواہش پر عمل کرتی رہی۔

دن گزرتے گئے اور بلال کے مالی حالات خراب ہوتے گئے۔

اس کے والد بیمار ہو گئے، اور ان کے پاس

اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ طبی اخراجات ادا کر سکیں۔ ایسی سنگین صورتحال میں

بلال کا مثبت رویہ ڈگمگا گیا، اور وہ امید کھو بیٹھا۔

ایک دن اسماء بلال سے ملنے آئی اور اسے اپنے والد کے منصوبے کے بارے میں بتایا

کہ اس کی شادی ایک امیر آدمی سے کر دی جائے گی۔

وہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن اس کے والد اسے ایسا کرنے پر مجبور کررہے تھے۔

بلال نے عاصمہ کی آنکھوں میں اداسی دیکھ کر اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس نے عاصمہ کے والد کے پاس جا کر عاصمہ سے اپنی محبت کے بارے میں بتایا

اور اس سے شادی کے لیے ہاتھ مانگا۔

 

اسماء کے والد کو صدمہ ہوا

لیکن وہ بلال کی آنکھوں میں سچی محبت دیکھ سکتے تھے اور اس شرط پر

ان کی شادی کے لیے راضی ہو گئے کہ بلال خود کو اسماء کے لیے فراہم کرنے کے قابل ثابت ہوں۔

بلال نے اسے ایک چیلنج کے طور پر لیا اور سخت محنت شروع کر دی۔

اس نے لمبے گھنٹے لگائے اور ان کی مالی حالت کو بہتر بنانے کے لیے سخت محنت کی۔

آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر، بلال کی محنت رنگ لائی گئی، اور

وہ اپنے والد کے طبی اخراجات کے لیے کافی رقم بچانے اور ایک نئی زندگی شروع کرنے کے قابل ہو گئے۔

اسماء اور بلال کی شادی ہوگئی، اور وہ ہمیشہ خوش و خرم رہنے لگے۔

انہوں نے ثابت کیا کہ محبت تمام رکاوٹوں کو فتح کر سکتی ہے اور عزم اور محنت سے کچھ بھی ممکن ہے۔

Sachool Bus urdu story

0

Sachool Bus urdu story

سکول جانے والی بس

انگلینڈ کے بارے میں جوکوئن کو سب سے زیادہ پسند آنے والی چیز بس تھی۔ وہ اور اس کی ماں جوکوئن کے نئے اسکول جانے کے لیے ہر روز بس لیتے تھے۔ اسے مختلف مسافروں کو ادھر ادھر دیکھنا اچھا لگا۔

زیادہ تر نشستوں پر کام پر جانے والے لوگ بیٹھے ہوتے تھے ۔ وہ اسمارٹ کپڑے پہنے ہوئے ہوتے تھے اور بیگ اور بریف کیس اٹھائے ہوئے ہوتے تھے۔ دوسری نشستیں جوکوئن جیسے اسکول کے بچے لے لیتے تھے ۔ ان میں سے زیادہ تر بڑے اورمماثل یونیفارم پہنے ہوئے تھے۔

جوکوئن کے پسندیدہ مسافروں میں سے ایک سفید بالوں والی خاتون تھی۔ اس نے اپنے بیگ میں ایک چھوٹا بھورا کتا اٹھایا ہوا تھا ۔ خاتون نے کہا کہ کتا گھبرا گیا ہے۔ جوکوئن نے اس بات کو ہمیشہ یقینی بنانا کہ وہ اس کو آہستہ سے تھپکی دے۔

جوکوئن زیادہ انگریزی نہیں جانتا تھا، لیکن اس کی ماں کافی جانتی تھی۔ جب وہ بس پر چڑھتے تو وہ کرایہ پوچھتی۔ بس ڈرائیور ان کے ٹکٹ پرنٹ کرتا۔

ہر صبح وہ کہتی، ‘بلیک فرایئرز کے لیے دو واپسی کے ٹکٹ۔’ ۔ جب وہ بس سے اترتے، تو وہ جوکوئن کو کہتی کہ ‘بہت بہت شکریہ۔’ الفاظ غیر مانوس لگے، لیکن اسے مشق کے ساتھ ان کا تلفظ کرنے کی عادت پڑ گئی۔

جوکوئن کے اسکول میں زیادہ تر طلباء انگریزی بولنے والے تھے۔ وہ اکثر کلاس روم کے پہلو میں اکیلا بیٹھا رہتا تھا۔ اس کا استاد دوستانہ تھا، لیکن جوکوئن شرمیلا تھا۔ اس نے ایک لفظی جواب دیا اور ہاتھ نہیں اٹھایا۔ اسے انگریزی میں کچھ غلط کہنے کی فکر ہوئی۔ وہ اپنی گرامر کو ملانا یا کسی چیز کا غلط تلفظ کرنا ناپسند کرتا تھا۔ جوکوئن اپنی انگریزی بولنے سے پہلے اسے کامل کرنا چاہتا تھا، لیکن اس نے کبھی بھی مشق کرنے کا موقع حاصل نہیں کیا تھا۔

دسمبر کے شروع میں، جوکوئن کی ماں کو زکام ہو گیا ۔ اس نے اپنے آپ کو اور جوکوئن کو موٹے کپڑوں میں ملبوس کیا۔ اس نے لمبا اسکارف گلے میں لپیٹ لیا۔ جوکوئن کو پہلے ہی زکام ہو چکا تھا ، لیکن برطانوی سردیاں تلخ اور سیاہ تھیں۔

ہوا نے اس کی انگلیوں کی پوروں کو چھوا ۔ جیسے ہی وہ بس اسٹاپ پر چلے گئے، اس کی ماں کانپنے اور کھانسنے لگی ۔ جوکوئن نے اپنی ٹھنڈی انگلیاں مضبوطی سے پکڑ لیں۔

بس آ گئی، اور وہ دوسرے مسافروں کے سوار ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ جوکوئن کی ماں نے دوبارہ کھانستے ہوئے کہا، ‘جوکوئن کرایہ کے لیے پوچھو۔’

جوکوئن نے ایک گہرا سانس لیا۔ اس نے بس میں قدم رکھا اور ادھر ادھر دیکھا۔ ہمیشہ کی طرح، وہاں بہت سے لوگ تھے. وہ اپنے فون یا کتابوں میں مشغول تھے۔ بوڑھی عورت اور اس کا کتا ہی اوپر دیکھ رہے تھے۔ خاتون جوکوئن کو دیکھ کر مسکرائی۔

تھوڑے اعتماد کے ساتھ، جوکوئن نے بس ڈرائیور کی طرف دیکھا اور اپنی انتہائی شائستہ آواز میں کہا،’ بلیک فرائز کے دو ٹکٹ۔’

بس ڈرائیور نے الجھ کر اس کی طرف دیکھا،’ بلیک فرائز؟’

‘جوکوئن نے محسوس کیا کہ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا ہے، ‘بلیک فرائز کے لیے۔ میرا اسکول بلیک فرائز میں ہے۔

‘کیا آپ کا مطلب بلیک فرایئرز ہے؟’

‘جی ہاں، ‘جوکوئن نے سر ہلایا۔

کچھ دوسرے مسافروں نے اپنے فونوں سے سر اٹھا کر اوپر دیکھا۔ وہ جوکوئن کی وجہ سے ہونے والی تاخیر سے ناراض دکھائی دے رہے تھے۔ ایک دفعہ جب جوکوئن کی والدہ نے اپنی ٹکٹوں کی ادائیگی کر لی تو اس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنا چہرہ چھپا لیا۔

جوکوئن کو شرم محسوس ہوئی۔ اس نے اپنی ماں کی مدد کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ ناکام رہا۔ ناک کو بار بار ُسڑکتے ہوئے، جوکوئن باقی سفر میں فرش کی طرف دیکھتا رہا۔ جب وہ بس سے اترے، تو جوکوئن نے بس ڈرائیور کو ‘شکریہ’ نہیں کہا جیسا کہ وہ عام طور پر کرتا تھا۔ اس کی ماں کو خود ڈرائیور کا شکریہ ادا کرنا پڑا۔

باقی دن کے لیے، جوکوئن معمول سے زیادہ خاموش تھا۔ اس نے اپنے استاد سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی، حالانکہ اس نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ وہ خود کو بولنے پر اکسا نہیں سکتا تھا اس صورت میں کہ اس سے کوئی اور غلطی ہوجائے ۔

جب جوکوئن کی ماں نے اسے اسکول سے لیا تو وہ اس صبح سے بہتر محسوس کر رہی تھیں۔

وہ جوکوئن کو گلے لگاتے ہوئے مسکرائی،’ کیا آپ کا دن اچھا گزرا؟’

جوکوئن نے جواب نہیں دیا۔

اس کی ماں نے اس کے پاس گھٹنے ٹیک دیے اور اس کے بالوں میں آہستہ سے ہاتھ پھیرا،’ جوکوئن ، کیا ہوا؟’

‘میں اپنی انگریزی کے بارے میں سارا دن شرمیلا اور پریشان رہتا ہوں۔ میں نے آپ کی مدد کرنے کی کوشش کی، لیکن میں ایسا نہیں کر سکا۔ میں چاہتا ہوں کہ میری انگریزی کامل ہو، لیکن مجھے بولنے میں ڈر لگتا ہے۔ یہ بہت آسان ہو گا اگر انگلینڈ میں ہر کوئی ہسپانوی بولے یا کوئی ایسی چیز جو میں سمجھ سکتا ہوں۔ یہ بہت مشکل ہے. میں گھر جانا چاہتا ہوں.’

جوکوئن کی ماں نے غور سے سنا۔

جب جوکوئن اپنے آنسو پونچھنے کے لیے رکا تو اس نے کہا، ‘کوئی بات نہیں ، میرے پیارے ۔ نئی چیزیں سیکھنے میں وقت لگتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں. تم میری مدد کرنے کے لیے اچھے لڑکے ہو۔ شکریہ۔ ‘

اس نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا، ‘تمہیں کامل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی بھی مکمل نہیں. آپ کو بس پراعتماد ہونے کی ضرورت ہے۔’ وہ مسکرائی، ‘آپ بہت اچھا کر رہے ہیں، اور مجھے آپ پر فخر ہے۔ ہمت نہ ہارو، جوکوئن ۔

جوکوئن نے سر ہلایا۔

بس اسٹاپ پر جاتے ہوئے، اس نے اپنی ماں کی باتوں کے بارے میں سوچا اور محسوس کیا کہ وہ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ یہاں تک کہ بہترین لوگ بھی کبھی کبھی گڑبڑ کرتے ہیں اورغلطیاں کرتے ہیں۔ جوکوئن نے سوچا کہ جس چیز نے انہیں بہترین بنایا وہ یہ تھا کہ وہ اٹھے اور اگلے دن دوبارہ کوشش کی۔ اگر وہ پراعتماد ہو اور اپنا سر اونچا رکھے تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔

بس انہیں گھر پہنچانے کیلئے پہنچی۔ بس پھر سے بھری ہوئی تھی، اور جوکوئن نے لوگوں کو سوٹ میں، اسکول کے بچوں اور کتوں والی خواتین کو دیکھا، یہ سب ایک دوسرے سے یا اپنے فون پر بات کر رہے تھے۔ وہ اعتماد کے ساتھ بات کرتے تھے، اور اگر وہ غلطی کرتے ہیں، تو وہ اسے ہنسی میں اڑا دیں گے۔

جب وہ اپنے اسٹاپ پر پہنچے تو جوکوئن اور اس کی والدہ بس سے اترے، اور جوکوئن ایک روشن، پراعتماد انداز میں بس ڈرائیور کی طرف مڑا ‘شکریہ!’

بس ڈرائیور نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا۔ جیسے ہی جوکوئن اور اس کی ماں گھر گئے، اس نے فیصلہ کیا کہ غلطیاں اتنی بری نہیں تھیں

نمازی اور شیطان کا واقعہ

0

نمازی اور شیطان کا واقعہ

نمازی اور شیطان کا واقعہ

ایک شخص اندھیری رات میں فجر کی نماز پڑھنے کے لیے گھر سے نکلا۔ اندھیرے کی وجہ سے اسے ٹھوکر لگ گئی اور وہ منہ کے بل کیچڑ میں گر گیا۔ کیچڑ سے اٹھ کر وہ گھر واپس آیا اور لباس تبدیل کر کے دوبارہ مسجد کی طرف چل دیا۔

ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ دوبارہ اسے ٹھوکر لگی اور وہ دوبارہ کیچڑ میں گر گیا۔ کیچڑ سے اٹھ کر وہ پھر دوبارہ اپنے گھر گیا۔ لباس بدلا اور مسجد جانے کے لیے دوبارہ گھر سے نکلا۔

جیسے ہی وہ اپنے گھر سے باہر نکلا۔ تو اس کے دروازے پر اسے ایک شخص ملا۔ جو اپنے ہاتھ میں روشن چراغ تھامے ہوئے تھا۔ چراغ والا شخص چپ چاپ نمازی کے آگے مسجد کی طرف چل دیا۔ اس مرتبہ چراغ کی روشنی میں نمازی کو مسجد پہنچنے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

وہ خیریت سے مسجد پہنچ گیا۔ مسجد کے دروازے پر پہنچ کر چراغ والا شخص رک گیا۔ نمازی اسے چھوڑ کر مسجد داخل ہوگیا اور نماز ادا کرنے لگا۔ نماز سے فارغ ہو کر وہ مسجد کے باہر آیا۔ تو وہ چراغ والا شخص اس کا انتظار کر رہا تھا۔

تاکہ اس نمازی کو چراغ کی روشنی میں گھر چھوڑ آئے۔ جب نمازی گھر پہنچ گیا۔ تو نمازی نے اجنبی شخص سے پوچھا: آپ کون ہے؟ اجنبی بولا سچ بتاؤں تو میں ابلیس ہوں۔ نمازی کی تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔

اس اجنبی کی یہ بات سن کر نمازی سوچنے لگا۔ ابلیس شیطان کیسے مجھے مسجد تک چھوڑ سکتا ہے؟ اس کا کام تو لوگوں کو بہکانا ہے۔ تو اس شخص نے بڑی حیرت کے ساتھ ابلیس سے پوچھا: تجھے تو میری نماز رہ جانے پہ خوش ہونا چاہیے تھا۔

مگر تم تو چراغ کی روشنی میں مجھے مسجد تک چھوڑنے آئے۔ ابلیس نے جواب دیا کہ جب تمہیں پہلی ٹھوکر لگی۔ اور تم لباس تبدیل کرکہ مسجد کی طرف پلٹے۔ تو اللہ تعالی نے تیرے سارے گناہ معاف فرما دیے۔

جب تمہیں دوسری ٹھوکر لگی تو اللہ تعالی نے تمہارے پورے خاندان کو بخش دیا۔ جس پر مجھے فکر ہوئی کہ اگر اب تمہیں ٹھوکر لگی۔ تو اللہ تعالیٰ کہیں تمھارے اس عمل کی بدولت تمارے سارے گاؤں کی مغفرت نہ فرما دے۔

اس لیے میں چراغ لے کر آیا ہوں کہ تم بغیر گرے مسجد تک پہنچ جاؤ۔ اس شخص نے جیسے ہی یہ بات سنی۔ تو اس نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنا سر جھکا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ تو دوستو یہ ہے ہمارے رب کی شان۔

سبحان اللہ

دھوبی کا گدھا

0

دھوبی کا گدھا

 

دھوبی کا گدھا

دھوبی کا گدھا ہارون ایک چھوٹا سا لڑکا تھا جو کراچی (پاکستان کا سب سے بڑاشہر اور بندر گاہ)کے بیرونی علاقے کے ایک گاؤ ں میں رہتا تھا۔ہارون اپنے گاؤ ں کے چھوٹے سے پرائمری سکول میں پڑھنے  جایا کرتا تھا جو کہ اس کے گھر سے کوئی ایک میل کے فاصلے پر تھا۔ اسکی جماعت کا کمرہ بہت کشادہ تھاجس میں  پٹ سن  کی بنی ہوئی بہت لمبی لمبی چٹائیاں فرش پر لمبی اور سیدھی قطاروں میں بچھی ہوتی تھیں۔ بچےّ ان چٹا ئیوں پر  تختہ سیاہ اور استاد کیطرف منہ کرکے بیٹھتے تھے۔ بچوّ ں کے لئے کوئی میز اور کرسیاں نہیں تھیں۔صرف ایک ڈیسک کمرے میں سب کے سامنے  کی طرف تھا جو کہ صرف  استاد کے استعمال میں تھا۔وہاں ایک طرف ایک الماری بھی تھی جس میں بچوّ ں کی کاپیاں اور کتابیں وغیرہ رکھی ہوئی  ہوتی تھیں۔ ان چند چیزوں کے علاوہ اس کمرے میں کوئی فرنیچر نہیں تھا۔ ان دنوں میں گاؤ ں کے چھوٹے سکولوں میں عام طور پر یہی طریقہ ہوتا تھا۔   

ہارون ایک اچھا لڑکا تھا جو کہ اپنے بڑے بزرگوں، اپنے والدین اور اپنے استاد کی عزّ ت کیا کرتا تھا۔ وہ روزانہ  بہت صبح سویرے اٹھتا   تاکہ وقت پر تیاّ ر ہو کر ناشتہ کرے، اور پھر وہ گھر سے نکل کر کھیتوں کے درمیان سے گزرتا ہوا  لمبا سفر طے کرکے سکول میں وقت سے پہلے پہنچ جائے۔وہ بہت محنت کرتا اور ہمیشہ اپنا سکول کا کام ختم کرتا۔ وہ ہمیشہ اپنے والدین کی اس نصیحت پر عمل کرتا کہ آج کا کام کبھی کل پر مت چھوڑو۔

سکول میں تفریح کے وقت ہارون اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل کے میدان میں کبڈّ ی کھیلا کرتا تھا۔ یہ کھیل پاکستان کے دیہاتی علاقوں کے نو جوانوں کے درمیان بہت مقبول ہے، اور ہارون کو بھی یہ کھیل کھیلنا بہت پسند تھا۔

ہارون کے ہمسائے میں ایک دھوبی بھی  رہا کرتا تھاجس کا نام تاجوُ تھا ۔ تاجوُ کے پاس ایک مر یل سا گدھا تھا جس پر سوار ہو کر وہ ہر ہفتے قریب کے ایک قصبےمیں جاتا اور وہاں کے لوگوں سے میلے کپڑوں کی گٹھڑیاں جمع کرکے لاتا۔ پھروہ گدھے پر سوار ہو کر کپڑوں کے ساتھ دریا پر جاتا اور وہاں پر وہ کپڑے دھو کر لاتا۔

تاجوُ کی ایک بری عادت تھی کہ جب وہ گدھے پر سوار ہوتا تو وہ بچارے گدھےکی ٹانگوں پر  زور  زور سے چھڑ ی مارتا جاتا تھا، تب وہ گدھا ایک بھیانک سی آواز  نکالتا تھا۔ ’ ڈھیں  ہوُ ں ،  ڈھیں ہوُ ں ‘  اور ساتھ ہی  تاجوُ  اپنا اور  بھاری  گٹھڑیوں کا بوجھ بھی اس پر لادے ہوئے ہوتا تھا۔پھر شام کو وہ گدھے پر سوار دھلے ہوئے کپڑوں  کی گٹھڑیوں کا بوجھ بھی اس پر لادے ہوئے اس کی ٹانگوں پر چھڑی مارتا ہوا واپس  آتا  تھا۔ جب دھوبی پاس سے گزرتا تو  ہارون اکثر گدھے کی یہ بھیانک اور غمزدہ آواز سنتا، اور گدھے کے بارے میں پریشانی کی وجہ سے وہ بچہّ رات کو سو نہ سکتا۔

دوسرے دن صبح کے وقت بھی سکول جاتے  ہوئے ہارون دھوبی کو  گدھے پر دھلے ہوئےکپڑوں کےساتھ سوار شہر کی طرف جاتے ہوئے  دیکھتا، جو ہمیشہ کی طرح گدھے کو لمبی چھڑی کے ساتھ   پیٹتا جاتا تھا۔بچارہ چھوٹا سا لڑکا اکثر بہت غور  و فکر سے  دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہتا کہ کس طرح اس گدھے کو   تاجوُ  کی مار  پیٹ سے بچایا جائے۔  مگر کبھی بھی  کوئی منصوبہ اس کی سمجھ میں نہیں  آیا۔

یہ سب کچھ عرصے تک جاری رہا، گدھا کمزور اور بوڑھا ہو گیا۔ تاجوُ  خود  بھی اپنے گدھے کی طرح بوڑھا اورکمزور  ہو گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دھوبی شہر سے اتنے  زیادہ کپڑوں کی گٹھڑیاں جمع کرکے دھونے کے لئے نہیں لا سکتا تھا۔ اس وجہ سےوہ اب زیادہ  غریب  ہو گیا تھا، اور اس کو اپنے گدھے کی دیکھ بھال پہلے سے زیادہ  مشکل لگتی تھی۔ اب تاجوُ  نے گدھے کو  تازہ سبز  گھاس  کی بجائے بچا کھچا کھانا دینا شروع کر دیا۔ لیکن اس کی گدھے کو  پیٹنے کی عادت نہیں بدلی۔

پھر ایسا اتفاق ہوا کہ ہارون نے اپنے پرائمری سکول کے فائنل امتحان کو اپنی جماعت میں سب سے زیادہ نمبرحاصل کرکےپاس کر لیا۔ ہیڈ ماسٹر نے اس کے سرٹیفِکیٹ کے ساتھ  اسے ایک خاص انعام بھی دیا، ہارون گاوُ ں بھر میں بہت مشہور ہو

گیا ۔اس کے والدین انتہائی خوش ہوئےاور اپنے بیٹے کی کامیابی پر ناز کرنے لگے۔ اس کی محنت اور کامیابی کی خوشی مناتے ہوئے ہارون کے والدین نے اس سےوعدہ کیا ،  کہ وہ اسے اس کی مرضی کی جو  چیز بھی وہ پسند کرے گا ، اسے وہی  تحفے میں خرید کر دیں گے۔

اسی رات کو جب وہ چھوٹا سا لڑکا اپنے کمرے میں سونے کے لئے گیا، اس کے کمرے کی کھڑکی کھلی تھی اور اسے اس بچارے گدھے کی غمزدہ آواز تھوڑے فاصلے سے سنائی دے رہی تھی ’ ڈھیں  ہوں  ،  ڈھیں  ہوں ‘  ۔ ہارون نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنے والد سے تاجوُ کاگدھا خریدنے کے لئے کہے گا۔ اسے یقین تھا کہ اس کے اباّ جان اس سے تعاون کریں گے مگر اسے ڈر تھا کہ بوڑھا  تاجوُ شاید نہ مانے۔

دوسرے دن جب ہارون نے درخواست کی کہ کیا وہ  تاجوُ کا گدھا خرید سکتا ہے؟ تو اس کے والد اس کی غیر متوقع درخواست پر بہت حیران ہوئے۔ انہوں نے کہا    ’بیٹے ! تاجوُ کے گدھے میں کیا خاص بات ہے؟  تم کوئی دوسرا  جانور بھی پال سکتے ہو‘۔  لیکن ہارون نے کہا ’ نہیں اباّ جان!  میں تاجو کا گدھا ہی حاصل کرنا بہتر سمجھتا ہوں ‘ ۔ تب اس چھوٹے سےلڑکے نے اپنے والد کے سامنے  تمام کہانی بیان کی کہ کس طرح  تاجوُ   اپنے گدھے کو  ایک لمبی چھڑی سے مارتا ہے اور کس طرح وہ اپنے گدھے سے کپڑوں کی بھاری  گٹھڑیاں اٹھواتا ہے اور اسےکھانے کے لئے تازہ گھاس کی بجائے بچا کھچا کھانا اسکے آگے ڈال دیتا ہے۔ ہارون نےاپنے والد کو وضاحت کرکے بتایا کہ کس طرح وہ  عرصے سے بچارے گدھے  کو اس سخت ظلم سے  بچانے کی خواہش رکھے ہوئے تھا۔ اس کی داستان سننے کے بعد اس کے والد اپنے بیٹے کے لئے اس بوڑھے گدھے کو خریدنے  پر راضی ہو گئے۔

اس طرح دوسرے روز صبح ہارون اور اس کے والد تاجوُ سے ملنے گئے اور انہوں نے دھوبی سے پوچھا کہ کیا وہ اس کا گدھا خرید سکتے ہیں؟ تاجوُ  کو اس درخواست پر بہت تعجبّ  ہوا ، تب وہ سوچنے لگا کہ اس کا گدھا  کتنا بوڑھا اور کمزور ہو  چکا ہے، اور اسےکھلانا پلانا اور اس کی دیکھ بھال کرنا اب کافی مشکل ہو گیا تھا۔ پھر تاجوُ  اچھی قیمت حاصل کرنے کے لئے کچھ دیر  بحث کرنے کے بعد اپنے بوڑھے گدھے کو باپ بیٹے کے ہاتھ  بیچنے  پر راضی ہو گیا۔

ہارون اور اباّ جان گدھے کو اپنے ساتھ ہی گھر لے آئے اور اسے اپنے گھر کے پیچھے بہت بڑے صحن میں آزاد چھوڑ دیا۔انہوں نے بوڑھے گدھے کو

کھانے کیلئے تازہ گھاس بھی دی۔اور  انہوں نے وعدہ کیا  کہ آیئندہ  اسے کبھی بھی کپڑوں کی بھاری گٹھڑیاں نہیں اٹھانی پڑیں گی، اور نہ ہی کسی لمبی چھڑی سے مار کھانی پڑے گی۔

ہارون نے ہمیشہ گدھے کی دیکھ بھال کی پوری کوشش کی، اور باوجود اس کے کہ وہ گدھا بہت ہی بوڑھا تھا  مگر وہ جلد ہی طاقتور اور صحت مند ہو گیا۔ وہ چھوٹا سا لڑکا بہت خوش تھا کیوں کہ وہ یہ دیکھ سکتا تھا کہ گدھا اپنے نئے گھر میں کتنا خوش تھا ۔اور اب ہارون کو کبھی بھی اس کی وہ انتہائی غمزدہ  آواز یں نہیں سننا پڑیں گی۔  

قوم سبا پر اللہ کے عذاب کا واقعہ

0

قوم سبا پر اللہ کے عذاب کا واقعہ

 

قوم سبا پر اللہ کے عذاب کا واقعہ

 

قوم سبا پر اللہ کے عذاب کا واقعہ اہل سرسار کی ایک قوم جسے قوم سبا بھی کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالی کی بے شمار نعمتوں کے اندر زندگی گزار رہی تھی۔ یہ قوم ایک عظیم تہذیب و تمدن کی مالک تھی۔
حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی باعظمت حکومتوں کے بعد ان کی حکومت زبان زد خاص و عام تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ گندم کے مغز سے آٹا پس کر روٹیاں پکاتے تھے۔

لیکن اس ے برعکس وہ اس قدر اصراف کرنے والے اور ناشکرے تھے کہ انہی روٹیوں کے ساتھ بچوں کا پاخانہ صاف کرتے تھے۔ بعد ازاں ان آلودہ روٹیوں کو اکٹھا کرنے سے ایک پہاڑ بن گیا تھا۔

پھر ایک صالح شخص نے وہاں سے گزرتے ہوئے ایک عورت کو دیکھا۔ جو روٹی کے ساتھ بچے کے پاخانے کے مقام کو صاف کر رہی تھی۔ اس شخص نے عورت سے کہا تیرے اوپر افسوس۔

خدا سے ڈر کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا تیرے اوپر اپنا غضب ڈھائے اور تجھ سے اپنی نعمت چھین لے۔ اس عورت نے جواب میں مذاق اڑایا اور مغرورانہ انداز میں کہا جاؤ جاؤ۔ گویا کہ مجھے بھوک سے ڈرا رہے ہو۔ جب تک سرسار جاری ہے مجھے بھوک سے کسی قسم کا کوئی خوف نہیں ہے۔

کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا نہ تھا کہ اللہ تعالی نے ان لوگوں پر اپنا غضب ڈھایا۔ پانی جو کہ زندگی کی بنیاد ہے، ان لوگوں سے چھین لیا۔ یہاں تک کہ قحط نازل ہوا۔ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ ان کی ذخیرہ کی ہوئی تمام غذا ختم ہوگئی۔

آخر کار وہ مجبور ہوگئے کہ انہیں آلودہ روٹیوں پر ٹوٹ پڑے۔ جو ان لوگوں نے اکٹھی کر کے پہاڑ کے مانند ڈھیر لگایا ہوا تھا۔ بلکہ وہاں سے روٹی لینے کے لیے صف لگتی۔ تاکہ ہر کوئی وہاں سے اپنے حصے کی روٹی لے سکے۔

کفران نعمت قحط اور ان کی بدحالی کے بارے میں متعدد روایات موجود ہیں۔ سورہ نحل کی آیت نمبر ایک سو بارہ اور ایک سو تیرہ میں یوں ارشاد ہوتا ہے۔

 

اور اللہ نے اس بستی کی بھی مثال بیان کی ہے۔ جو محفوظ اور مطمئن تھی۔ اس کا رزق ہر طرف سے باقاعدہ آ رہا تھا۔ لیکن اس بستی کے رہنے والوں نے اللہ کی نعمتوں کا انکار کیا۔ تو خدا نے انہیں بھوک اور پیاس کا مزہ چکھایا۔ صرف ان کے ان اعمال کی بنا پر کہ جو وہ انجام دے رہے تھے۔

اور یقینا ان کے پاس رسول آیا۔ تو ان لوگوں نے ان کو جھٹلایا۔ تو پھر ان تک عذاب آ پہنچا کہ یہ سب ظلم کرنے والے تھے۔

 

اسی قوم سبا کے بارے میں ایک اور واقعہ بیان ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے اپنی زراعت کو بہتر طور پر کاشت کرنے کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی خاطر، بلق کے دو پہاڑوں کے درمیان ایک بہت بڑا بند معرب تعمیر کیا ہوا تھا۔

سوراخ اور دوسرے پہاڑوں سے گزرا ہوا پانی اس بند میں آ کر وافر مقدار میں جمع ہو جاتا تھا۔ قوم سبا نے اس پانی سے صحیح طور پر استفادہ کرتے ہوئے وسیع و عریض اور بہت سے خوبصورت باغات لگائے اور کھیتی باڑی کو رونق بخشی۔

ان باغات کے درختوں کی شاخیں اس قدر پھلوں سے لدی ہوئی ہوتی تھیں کہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص سر پر ٹوکری رکھ کر ان کے نیچے سے گزرتا تو پھل خود بخود ٹوکری میں گرنا شروع ہو جاتے اور قلیل مدت میں ٹوکری تازہ پھلوں سے بھر جاتی۔

لیکن نعمتوں کی کثرت نے انہیں شکر کرنے کے بجائے سرمست اور غافل کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ ان کے درمیان بہت بڑا طبقاتی نظام وجود میں آ چکا تھا۔ ان میں سے صاحب اقتدار لوگوں نے کمزوروں اور ضعیفوں کا خون چوسنا شروع کر رکھا تھا۔

یہاں تک کہ ان لوگوں نے خدا سے ایک احمکانہ التماس کیا۔ جس کا ذکر سورہ سبا کی آیت نمبر انیس میں ملتا ہے

 

انہوں نے کہا خدایا ہمارے سفروں کے درمیان فاصلہ زیادہ کر دے۔

 

انہوں نے اللہ تعالی سے یہ التماس اس لیے کیا تاکہ غریبوں بے نواح لوگوں، عمرہ اور ثروت مند ان کے ہمراہ سفر نہ کریں۔ان کی خواہش یہ تھی کہ آبادیوں کے درمیان خشکی ہو اور فاصلہ بہت زیادہ ہو۔ تاکہ تہی دست اور کم آمدنی والے لوگ ان کی طرح سفر نہ کر سکیں۔

اللہ تعالی نے ان مغرور پیٹ کے پجاریوں پر اپنا غضب نازل کیا۔ بعض روایتوں کے مطابق ان مغرور لوگوں کی آنکھوں سے دور صحرائی چوہوں نے معرب نامی بند کی دیواروں پر حملہ کر کے انہیں اندر سے کھوکھلا کر دیا۔

ادھر سے بارشیں زیادہ ہوئیں۔ جن کی وجہ سے سیلاب آگیا اور اس بند میں پانی بہت زیادہ اکٹھا ہو گیا۔ اچانک بند کی دیواریں ٹوٹیں اس سے ایک بہت بڑا سیلاب آیا۔ جس میں تمام دیہات, آبادیاں, مال مویشی, باغات, کھیتیاں, ان کے محل اور گھر پانی میں غرق ہو کر نابود ہو گئے۔

ان کے باغات اور زراعت میں سے صرف بیری کے درخت اور کچھ جھاڑیاں بچی تھیں۔ خوش الہان پرندے وہاں سے کوچ کر گئے تھے۔ جبکہ الوؤں اور کوؤں نے قوم سبا کے کھنڈرات میں اپنے گھونسلے بنا تھے۔ اس بات کا ذکر سورہ صبا کی آیت نمبر پندرہ اور سولہ میں ملتا ہے۔ اور آخر میں سورہ صبا کی آیت نمبر سترہ میں قرآن کریم میں اس واقعہ کا یوں نتیجہ نکالا ہے۔

 

:نتیجہ

یہ ہم نے ان کی ناشکری کی سزا دی ہے اور ہم نا شکروں کے علاوہ کسی کو سزا نہیں دیتے ہیں”۔

One line Quotes in urdu

0

20 One line Quotes in urdu

One line Quotes in urdu are a greate way to convey your massage in a short amd concise mannner.

We have collection of love quotes, Motivation Quotes ,urdu stories, kids stories, and many other like life quotes on this blog akquotesxyz so visit us regular.

اردو میں ایک سطری اقتباسات آپ کے پیغام کو مختصر اور جامع انداز میں پہنچانے کا بہترین طریقہ ہیں۔

ہمارے پاس اس بلاگ (………….) پر محبت کی قیمتوں حوصلہ افزائی کی قیمتوں اور زندگی کی قیمتوں جیسے بہت سے دوسرے کا مجموعہ ہے لہذا ہم سے باقاعدگی سے وزٹ کریں

 

One line Quotes in urdu

 

اب دل حسرتیں نہیں کرتا

 

 

عین ممکن ہے کہ سبھی سے کنارہ کر لوں

 

 

رات کے پاس اندھیروں کے سوا کچھ نہیں

 

 

میں نے سانپوں کو دکھائے مجھے ڈستے ہوئے لوگ

 

 

مختصر رہو لیکن مخلص رہو

 

 

عشق نہیں سوچتا معشوق کیا سوچتی ہیں

 

 

یقین رکھیں آپ کسی نہ کسی کی دعاؤں میں ضرور ہوتی ہیں

 

 

اتنے خاموش ہوں گے ہم کہ چیخ اٹھو گے تم

 

 

میرا عشق چاند جیسا تھا پورا ہوا تو گھٹنے لگا

 

 

ربا میرے حال دا محرم توں

 

 

کبھی بھی کسی کی توہین مت کرو

 

 

مولا سر بھی نہ دکھے اس کا جس نے دل دکھایا

 

 

ساتھ دے گی خوشی بھلا کب تک

 

 

خاموشی اکثر رشتے توڑ دیتی ہیں

 

 

عشق کی فطرت میں ہے بے وجہ ہو جانا

 

 

پھر شب وصل ملاقات نہ ہونے پائی

 

 

حشر میں بتاؤں گا جو حشر کیا ہے تو نے

 

 

سمٹا ہوا ہے آنکھ کے خیمے میں انتظار

 

 

میں ہن عشق قضا نہیں کرنا

 

 

وابستگی ہمیشہ تکلیف دہ ہوتی ہیں

Allama Iqbal Best Urdu Poetry

0

10 Allama Iqbal Best Urdu Poetry

 

Allama Iqbal’s best Urdu poetry is a collection of deeply philosophical and inspirational verses that reflect his vision of self-discovery, spiritual awakening, and the revival of the Muslim Ummah. His poetry is known for its eloquent expression of complex ideas, blending themes of love, freedom, faith, and the pursuit of knowledge.

Iqbal, often referred to as the “Poet of the East,” used his poetry to inspire individuals to rise above their circumstances, embrace their inner strength, and aspire to greatness. His works encourage readers to seek spiritual and intellectual enlightenment, often drawing from Islamic teachings and Sufi philosophy.

Some of his most famous poems include:

1. **”Shikwa” and “Jawab-e-Shikwa”**: These are two of his most famous poems where Iqbal first questions the challenges faced by Muslims and then provides an optimistic response, urging them to take charge of their destiny.

2. **”Saare Jahan Se Achha”**: A patriotic poem expressing love for the homeland and unity among Muslims.

3. **”Lab Pe Aati Hai Dua Ban Ke Tamanna Meri”**: A heartfelt prayer for children, highlighting the hopes and aspirations of future generations.

4. **”Masjid-e-Qurtuba”**: A poem that reflects on the grandeur of Islamic civilization and the spiritual connection with Allah.

5. **”Khudi”**: A recurring theme in Iqbal’s poetry, “Khudi” refers to the concept of selfhood or self-realization, urging individuals to awaken their potential and take control of their destiny.

Iqbal’s poetry remains influential and is celebrated for its depth, emotional power, and ability to inspire readers to reflect on their own lives and the world around them.

 

میں تجھ کو تجھ سے زیادہ چاہوں گا

مگر شرط ہے اپنے اندر میری جستجو پیدا کر

 

 

من کی دولت ہاتھ آ تی ہے تو پھر جاتی نہیں

تن کی دولت چھاؤں ہے ،آ تا ہے دھن جاتا ہے دھن۔

 

 

یورپ کی غلامی پے رضا مند ہوا تُو

مجھ کو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں۔

 

 

علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن

عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمینِ وظن۔

 

 

ایک بار آ جا اقبال ؔ پھر کسی مظلوم کی آواز بن کر

تیری تحریر کی ضرورت ہے کسی خاموش تقریر کو یہاں۔

 

 

ڈھو نڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آ پ کو

آ پ ہی گویا مسافر آ پ ہی منزل ہوں میں۔

 

 

اس دور کی ظلمت میں ہر قلب پریشان کو

وہ داغِ محبت دے جو چاند کو شرمادے۔

 

 

ذرا سی بات تھی ،اندیشہ عجم نے اسے

بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستان کے لئے

 

 

شاہین کبھی پرواز سے گِر کر نہیں مرتا

پر دم ہے اگرتو، تو نہیں خطرۂ افتاد۔

 

 

نہ تو زمین کے لئے ہے نہ آ سمان کے لئے

جہاں ہے تیرے لئے ،تو نہیں جہاں کے لئے۔

لعنت

0

 

لعنت

لعنت

 

لعنت بہت عرصہ پہلے بڑے جنگل کے کنارے ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ یہ زیادہ تر وقت پرامن گاؤں تھا، لیکن گاؤں کے لوگ لوبیزون کے خوف میں رہتے تھے، جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ جنگل کے اندر رہتے تھے۔ لوبیزون تاریک مخلوق تھے، آدھا آدمی اور آدھا بھیڑیا، اور ہر پورے چاند کی تاریخ پر کہا جاتا تھا کہ یہ مخلوق انسانی گوشت کی تلاش میں جنگل سے باہر نکل آتی تھی۔

لیکن ایسی مخلوق کیسے وجود میں آئی؟ یہ سادہ بات ہے: کسی بھی خاندان میں پیدا ہونے والے ساتویں بیٹے پر لعنت۔ لعنت کسی بیٹی پر نہیں پڑے گی لیکن اگر ایک ماں نے سات بیٹوں کو جنم دیا تو ان بیٹوں میں سے آخری ضرور لوبیزون بنے گا۔

جب فلپ پیدا ہوا تو اس کی ماں خوفزدہ تھی۔ اسے بیٹی کی امید تھی، ساتویں بیٹے کی نہیں۔ لیکن فلپ کی ماں مہربان اور پیار کرنے والی تھی اور وہ اپنے بچے سے پیچھے ہٹنے  والی نہیں تھی، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ گاؤں والے اس لعنت کے بارے میں کچھ بھی کہیں۔

کئی سال سکون میں گزر گئے۔ فلپ ایک مضبوط لڑکا بن گیا جسے اس کی ماں اور باپ اور چھ بھائی بہت پسند کرتے تھے۔ لیکن فلپ یہ یہ نوٹس کرنے سے نہیں رہ سکا کہ اس کے ساتھ اس کے بھائیوں سے مختلف سلوک کیا گیا تھا۔ وہ اسکول نہیں گیا کیونکہ استاد اس کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ یہ مناسب نہیں تھا کیونکہ نوجوان لڑکا نئی چیزیں سیکھنا پسند کرتا تھا اور شدت سے دوسرے بچوں کے ساتھ دوستی کرنا چاہتا تھا۔

اگر کبھی فلپ کو اس کی ماں نے روٹی لینے کے لیے بھیجا تو گاؤں کے لوگ کبھی بھی اس کے راستے میں نہیں آتے تھے اور ہمیشہ اس کی طرف خوف اور ناراضگی کے امتزاج سے دیکھتے جس نے نوجوان لڑکے کو بے چین کر دیا۔ دوسرے بچے اس کے ساتھ نہیں کھیلتے تھے اور جب پورا چاند ہوتا تھا تو اسے کبھی باغ میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ آخری نقطہ شاید ان سب میں سب سے برا تھا کیونکہ فلپ کو چاند سے بہت پیار تھا، اس کے بارے میں کچھ – خاص طور پر جب وہ رات کے آسمان میں بھرا ہوا اور گول تھا – نے فلپ سے بات کی اور اس کی روح کو جگایا اور اسے گانے، ناچنے اور بھاگنے پر مجبور کیا۔

زندگی پرامن ہونے کے باوجود خوشی سے بہت دور تھی۔ فلپ نے ہر گزرتے سال کے ساتھ خود کو زیادہ سے زیادہ الگ تھلگ پایا۔ اس کا کوئی دوست نہیں تھا اور اسے کبھی بھی دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ کبھی کبھی وہ ان کی ہنسی سنتا اور تصور کرتا کہ وہ کیا کھیل کھیل رہے ہیں اور وہ سب کتنا مزہ کر رہے ہیں۔ فلپ نے یہ بھی دیکھا کہ اس کی ماں اور اس کے بھائی بھی اسے عجیب نظروں سے دیکھنے لگے تھے۔

‘میرے ساتھ اتنا برا کیا ہے؟’ فلپ اکثر اپنے آپ سے پوچھتا تھا۔ ‘میں اتنا برا لڑکا نہیں ہوں۔ میں اپنے کام کاج کرتا ہوں اور میں ‘تقریباً کبھی بدتمیزی نہیں کرتا۔ میرے ساتھ دوسرے بچوں سے اتنا مختلف سلوک کیوں کیا جاتا ہے؟

جیسے ہی وہ اپنی پندرہویں سالگرہ کے قریب پہنچا، فلپ پہلے سے کہیں زیادہ اداس تھا۔ اس کی ماں اسے شاذ و نادر ہی گھر سے باہر جانے دیتی تھی اور وہ اکثر اس کی صحبت میں مشتعل نظر آتی تھی۔ کم عمر بچے اگر کبھی اسے اپنے گھر کے پاس خود کھیلتے ہوئے دیکھتے تو اس پر پتھر پھینک دیتے، لیکن جب وہ ان کو للکارنے کے لیے مڑتا تو وہ چیختے ہوئے بھاگ جاتے جیسے وہ کوئی عفریت ہو۔ کبھی کبھی فلپ بڑے جنگل میں پناہ ڈھونڈنے اور کبھی واپس نہ آنے کی خواہش کرتا تھا۔

ایک دن اس کی ماں نے اسے بٹھایا اور اس کی پریشانی کی وجہ بتائی۔ ‘تم میرے ساتویں بیٹے ہو،’ اس نے کہا، ‘اور میرے بچے، تم پر لعنت ہے’۔

فلپ بہت پریشان تھا۔ ‘کیسی لعنت؟’ اس نے پوچھا۔

‘اپنی پندرہویں سالگرہ پر آپ ایک لوبیزون بن جائیں گے، ایک ایسی مخلوق جو آدھا انسان اور آدھا بھیڑیا ہے۔’

فلپ اپنی کتابوں سے لوبیزون کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا اور ان کہانیوں سے جو اس کے بھائیوں نے رات کو شیئر کی تھیں جب بھی انہیں لگتا تھا کہ وہ اپنے بستر پر سو رہا ہے۔ لیکن انہوں نے فلپ کو کبھی نہیں بتایا تھا کہ وہ اس طرح ملعون ہے۔ وہ لوبیزون نہیں بننا چاہتا تھا۔ وہ شیطانی یا ظالم نہیں بننا چاہتا تھا، اور اسے اپنے پورے جسم پر لمبے پنجوں اور موٹی کھال ہونے کے خیال کے بارے میں بالکل بھی یقین نہیں تھا۔

اپنی پندرہویں سالگرہ کے موقع پر، نوجوان فلپ اپنی پوری زندگی میں اس سے زیادہ اداس تھا جتنا وہ پہلے کبھی نہیں تھا۔ وہ اندھیرے میں بستر پر بیٹھ کر اپنے آپ سے رونے لگا۔ ‘میں ہمیشہ اکیلا رہا ہوں،’ اس نے سوچا۔

‘میرے ساتھ ہمیشہ مختلف سلوک کیا گیا ہے۔ اور اب میں لوبیزون بننے پر لعنت شدہ ہوں۔ میں کیا کروں؟ میں صرف اتنا چاہتا تھا کہ ہر ایک کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے۔ میں صرف اتنا چاہتا تھا کہ دوستوں کے ساتھ جنگل میں کھیلوں اور رات کو خوبصورت چاند کی تعریف کروں۔’

اسی وقت فلپ نے اپنے بیڈروم کی کھڑکی سے باہر دیکھا اور دیکھا کہ چاند ستاروں سے بھرے گہرے نیلے آسمان میں طلوع ہو رہا تھا ۔ یہ ایک بڑا خوبصورت پورا چاند تھا اور اس نے اس کا دل خوشی سے بھر دیا۔ پھر کچھ بہت ہی عجیب ہوا: فلپ نے اپنے پیٹ میں ہلچل محسوس کی اور اپنی جلد پر خارش محسوس کی۔ اس کے سینے سے چیخنے کی آواز آئی اور اس نے چاند کی طرف سر اٹھا کر اسے پکارا جیسا اس نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ اس کے جسم پر اچانک کھال پھوٹ آئی اور اس کے ہاتھوں اور پیروں کے ناخن ہاتھی دانت کے رنگ کے لمبے پنجوں میں بدل گئے۔ اس کے کپڑے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور اس کے قدموں میں فرش پر گر گئے۔ اور جب فلپ نے آئینے میں دیکھا تو اس نے ایک لمبے بھیڑیے والے لڑکے کا عکس دیکھا جو اس کے پورے جسم پر موٹی کھال کے ساتھ اسے گھور رہا تھا اور جنگلی سرخ آنکھیں جو اندھیرے میں چمکتی دکھائی دے رہی تھیں۔

‘ تو میں ایک لوبیزون ہوں!’ اس نے چونک کر کہا۔

فلپ نے چاند اور جنگل کی پکار کو محسوس کیا اور وہ جانتا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی پرانی زندگی سے منہ موڑ لے اور اپنی تقدیر کو گلے لگائے۔

نوجوان بھیڑیے والے لڑکے نے اپنے بیڈروم کی کھڑکی کھول دی۔ رات کو باہر چھلانگ لگانے سے پہلے وہ رک گیا اور اپنے پرانے بیڈروم کے ارد گرد ایک آخری نظر ڈالی اور اپنی ماں اور باپ اور اپنے چھ بھائیوں کے بارے میں سوچا۔ ‘میں آپ کو ہمیشہ یاد رکھوں گا، میرے پیارے خاندان، لیکن اب مجھے قبول کرنا چاہیے کہ میں کون ہوں اور نئی زندگی کا آغاز کروں گا۔’

پھر وہ اپنے سونے کے کمرے کی کھڑکی سے چھلانگ لگا کر جنگل کی طرف بھاگا، ہر وقت چاند پر چیختا رہتا، اس کا دل مستقبل کے لیے عجیب نئی امید سے بھرا رہتا تھا۔

جب فلپ بڑے گہرے جنگل کے اندر تھا، تو اس نے ایک خوبصورت جگہ پر رک کر قدیم درختوں اور آسمان میں بلندی پر موجود خوبصورت چاند کو دیکھا۔ وہ چیختا اور چیختا اور چھلانگ لگاتا اور ناچتا اور ہنستا… اور جب آخر کار اس نے چیخنا اور ناچنا بند کر دیا تو اس نے اردگرد دیکھا اور دیکھا کہ دیگر لوبیزون جنگل کے خالی حصے میں جمع تھے۔ کچھ فلپ کی طرح جوان تھے، کچھ بوڑھے تھے۔

وہ فلپ کے قریب پہنچے اور اس کا استقبال کیا۔

’تم اب گھرمیں ہو، دوستوں کے درمیان بڑے جنگل میں،‘ ایک نے نرم اور شفیق لہجے میں کہا۔ اور یہ تب ہی تھا جب فلپ کو احساس ہوا کہ وہ بالکل بھی لعنتی نہیں ہے۔

‘میں ایک لوبیزون ہوں اور میں گھر میں ہوں!’ اس نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا جب اس نے پورے چاند تک اپنا سر اٹھایا اور پوری طاقت سے چیخا۔ دوسرے لوبیزون سب نے اس میں شمولیت اختیار کی اور چاند کے اعزاز میں رات کے آسمان پر ایک زبردست  گروپ میں گانا گایا۔

کئی میل دور، فلپ کی ماں اپنے باغ میں اپنے نائٹ گاؤن میں ملبوس کھڑی تھی اور بڑے جنگل کے اندر سے ہلکی ہوا کے جھونکے پر بہتی ہوئی لوبیزون کی آواز سن رہی تھی۔ بوڑھی عورت اپنے آپ سے مسکرائی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کے ساتویں بیٹے نے آخرکار اپنے آپ کیلئے ایک ایسا گھرڈھونڈ لیا ہے جہاں اس کا استقبال کیا جائے گا اور جہاں اس کے بہت سے دوست ہوں گے اور وہ لمبی اور خوشگوار زندگی گزاریں گے۔

Sad Quotes in Urdu

0

Sad Quotes in Urdu

Sad Quotes in Urdu are not only used to express sorrow but also to share feelings of love and care.

Sad quotes in Urdu, often called as “dard bhare” quotes, can be shared with a loved one or a family member who is grieving.

It is also a way of expressing sorrow for the departed ones by quoting their words.

We have collection of inspiration Quotes, Motivation Quotes and many other like English quotes on this blog akquotesxyz so visit us regular.

Sad Quotes in Urdu

 

یہاں قدم قدم پر نئے فنکار ملتے ہیں لیکن قسمت والوں کو سچے یار ملتے ہیں

 

 

گرور کس بات کا صاحب

آج مٹی کے اوپر کل مٹی کے نیچے

 

 

خود سے ناراض ، زمانے سے خفا رہتے ہیں

جانے کیا سوچ کے ہم سب سے جدا رہتے ہیں

 

 

اب تو وہ ہوگا جو دل فرمائے گا

بعد میں جو ہوگا دیکھا جائے گا

 

 

جو پتھروں میں چمک دیکھ کر موتی گمان کرتے ہو

اہلِ دل تو بہت ہیں مگرہیرے کی پہچان کہاں رکھتے ہو

 

 

منزل تو ملے گی بھٹک کر ہی سہی

گمراہ تو وہ ہیں جو گھر سے نکلے ہی نہیں

 

 

کچھ نہیں ملتا اس دنیا میں محنت کے بغیر

مجھے اپنا سایہ بھی دھوپ میں جانے کے بعد ملا

 

 

شاخیں رہیں تو پھول بھی پتے بھی آئیں گے

یہ دن اگر برے ہیں تو اچھے بھی آئیں گے

 

 

بچپن والے کھیلونے پوچھ رہے ہیں

کہ کیسا لگتا ہے جب کوئی کھیلتا ہے تو۔

 

 

اب تو خوش نظر آتا ہوں میں

کیسا فنکار ہوگیا ہوں میں