Home Blog Page 5

Allama iqbal urdu poetry

0

علامہ اقبال کا تعارف

Allama Iqbal’s Urdu poetry is a significant and influential body of work in South Asian literature, renowned for its profound philosophical depth and passionate expression. Iqbal, a philosopher, poet, and politician, is often hailed as the “Poet of the East” and a key figure in the intellectual and cultural renaissance of the Muslim world in the early 20th century.

Themes and Styles

1. **Philosophical Reflection**: Iqbal’s poetry delves into complex philosophical themes, exploring concepts such as selfhood (Khudi), existentialism, and the nature of divine reality. His work encourages personal and collective awakening and the realization of one’s potential.

2. **Spiritual Awakening**: Iqbal’s verses frequently address themes of spiritual enlightenment and the quest for a deeper connection with the divine. His poetry reflects a strong influence of Sufism and Islamic mysticism.

3. **Patriotism and Nationalism**: Iqbal’s poetry is infused with a sense of national pride and a vision for the future of Muslims in South Asia. He inspired the idea of a separate nation for Muslims, which eventually led to the creation of Pakistan. His poems often reflect a longing for unity and self-determination.

4. **Cultural Renaissance**: Iqbal’s work also emphasizes the importance of cultural and intellectual revival. He advocated for the rejuvenation of Islamic values and the promotion of a vibrant cultural identity.

Key Works

Some of Iqbal’s most celebrated works include:
– **”Bang-e-Dra” (The Call of the Marching Bell)**: A collection of poems that reflect his philosophical and nationalistic ideas.
– **”Asrar-e-Khudi” (The Secrets of the Self)**: A philosophical treatise in poetic form that explores the concept of selfhood.
– **”Rumuz-i-Bekhudi” (The Secrets of Selflessness)**: This work complements “Asrar-e-Khudi,” focusing on the role of selflessness in the spiritual and societal realm.

Legacy

Allama Iqbal’s Urdu poetry has left a lasting impact on South Asian literature and thought. His eloquent use of language and innovative poetic forms continue to inspire readers and scholars. His works remain central to discussions of modern Islamic philosophy and cultural identity in the region.

علامہ اقبال، جنہیں “مفکرِ پاکستان” (مفکرِ پاکستان) اور “شاعرِ مشرق” (شاعرِ مشرق) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، برطانوی ہندوستان میں ایک ممتاز فلسفی، شاعر، اور سیاست دان تھے جنہوں نے قیام پاکستان کی تحریک میں اہم کردار۔ ان کی اردو شاعری اس کی گہری فلسفیانہ گہرائی، روحانی بصیرت، اور خود شناسی اور سماجی تبدیلی کی دعوت کی خصوصیت رکھتی ہے۔

اقبال کی شاعری اکثر خود کی دریافت، انفرادیت اور روح کے روحانی سفر کے موضوعات کے گرد گھومتی ہے۔ اس کی آیات انسان کے وجود کی پیچیدگیوں کو تلاش کرتی ہیں، فرد اور الہی کے درمیان تعلق کو تلاش کرتی ہیں۔ اقبال کا اسلامی تصوف بالخصوص تصوف سے گہرا تعلق ان کی تصانیف سے ظاہر ہوتا ہے، کیونکہ وہ گہری روحانی سچائیوں کے اظہار کے لیے فارسی اور اردو شاعری کی بھرپور روایت کو کھینچتے ہیں۔

اقبال کی شاعری میں بار بار آنے والے موضوعات میں سے ایک “خودی” یا خودی کا تصور ہے، جہاں وہ افراد کو ان کی اندرونی صلاحیتوں کو پہچاننے اور اپنے حقیقی قد کی طرف بڑھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ وہ ذاتی اور اجتماعی ترقی کے لیے ضروری عناصر کے طور پر عزت نفس، وقار، اور علم کے حصول کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔

اقبال کی شاعری تصوف کے دائرے تک محدود نہیں ہے۔ یہ اپنے وقت کے سماجی اور سیاسی چیلنجوں کو بھی حل کرتا ہے۔ اس نے جذباتی طور پر مسلمانوں کے حقوق اور بااختیار بنانے کی وکالت کی اور ان کے لیے ایک علیحدہ وطن کا تصور کیا، جو بالآخر 1947 میں پاکستان بنا۔

ان کے گہرے فلسفیانہ مظاہر کے علاوہ، علامہ اقبال کی شاعری اپنی فصاحت، بھرپور منظر کشی اور موسیقیت کے لیے مشہور ہے۔ ان کی نظمیں اردو بولنے والی دنیا کے قارئین کے ساتھ گونجتی رہتی ہیں، اور شاعر فلسفی کی حیثیت سے ان کی میراث ادب، فلسفہ اور پاکستان کی ثقافتی شناخت پر نمایاں اثر رکھتی ہے۔

Allama iqbal urdu poetry

 

ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا

وہی لن ترانی سننا چاہتا ہوں

 

 

یہ جنت رہے مبارک زاہدوں کو

کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

 

 

اگر نہ بدلوں تیری خاطر ہر اِک چیز تو کہنا

تو اپنے اندر پہلے اندازِ وفا تو پیدا کر

 

 

بُرا سمجھوں انہیں مجھ سے ایسا ہو نہیں سکتا

کہ میں خود بھی تو ہوں اقبال نقتہ چینوں میں۔

 

 

اگر سچ ہے تیرے عشق میں تو اے بنی آدم

نگاہِ عشق پیدا کر جمالِ ظرف پیدا کر

 

 

اگر محبت کی تمنا ہے تو پھر وہ وصف پیدا کر

جہاں سے عشق چلتا ہے وہاں تک نام پیدا کر

 

 

جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں

ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزہ ہی نہیں۔

 

 

ستم ہوکے ہو وعدہ بے حجابی

کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں

 

 

کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل

چراغِ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں

 

 

تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

ہندو عورت کا سورۂ فاتحہ پر یقین کا واقعہ

0

ہندو عورت کا سورۂ فاتحہ پر یقین کا واقعہ

 

ہندو عورت کا سورۂ فاتحہ پر یقین کا واقعہ

 

ہندو عورت کا سورۂ فاتحہ پر یقین کا واقعہ عرب کے قبیلے میں ایک غیر مسلم شادی شدہ عورت رہا کرتی تھی۔ اس کا شوہر بہت بڑا بزنس مین تھا۔ ایک مرتبہ اس نے سنا کہ ملک عرب یعنی مکہ میں اللہ کے آخری نبی جو اللہ کے محبوب نبی ہیں۔

ان پر ایک سورت نازل ہوئی ہے۔ جس کا نام ہے “سورۃ الفاتحہ”۔ جس میں ہر بیماری سے شفا موجود ہے۔ وہ جس پر بھی دم کی جاتی ہے یا پڑھ کر پھونکی جاتی ہے۔ وہ انسان اچھا ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس میں بے شمار برکات ہے۔

 

اس میں اب عقیدے کی بات ہے۔ مسلم ہو یا غیر مسلم اللہ پاک جس کے دل میں ایمان کی روشنی ڈالنا چاہے۔ اللہ کی قدرت کا تو آپ سب کو اندازہ ہو گا۔

اب کسی شخص سے اس عورت نے سورۃ فاتحہ سیکھ لی۔ پھر جب اس نے سورۃ فاتحہ کا ترجمہ پڑھا۔ تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ جب بھی یہ سورۃ پڑھتی تھی۔ اللہ تعالی اس کے بگڑے کاموں کو سنوار دیتا۔

ایک دن اس کے بیٹے کو ایک خطرناک زہریلے بچھو نے کاٹ لیا۔ بڑے بڑے حکیموں، طبیبوں کو بلوایا گیا۔ سب نے یہ کہہ کر جان چھڑوا لی کہ اس بچھو کا زہر بہت خطرناک ہے۔ اس بچے کا ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ تمہارا یہ بچہ بس کچھ ہی دیر کا مہمان ہے۔

 

ماں کا رو رو کر برا حال تھا اور شوہر اپنے خداؤں کی عبادت کر رہا تھا۔ ان سے مدد مانگ رہا تھا۔ پھر جب کوئی حل نہیں نکلا۔ تو اس عورت کو یاد آیا کہ سورۃ فاتحہ کے بارے میں اس نے پڑھا ہے کہ اس میں ہر بیماری سے شفا ہے۔

اس کے دل میں خیال آیا کہ اگر میں اسے پڑھ کر اپنے بچے پر دم کروں۔ تو کیا میرا بچہ ٹھیک ہو جائے گا؟ کیونکہ اللہ تعالی نے اس عورت کو ایمان کی طرف لانا تھا۔ اس کے دل میں اسلام کی محبت مزید پیدا کرنی تھی۔ تو اس کی زبان میں تاثیر دے دی۔

جب اس نے اس سورۃ کو پڑھ کر اس جگہ پر دم کیا جہاں بچھو نے کاٹا تھا۔ تو اس کا لڑکا اٹھ کر بیٹھ گیا اور جب اس نے سورۃ فاتحہ کو پانی پر دم کر کے پلایا۔ تو وہ اٹھ کر ایسے کھڑا ہو گیا جیسے کسی بچھو نے کبھی کاٹا ہی نہیں تھا۔

اس کا شوہر دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا اور کہنے لگا کسی طبیب نے اور کسی حکم نے اسے ٹھیک نہیں کیا۔ تو تم نے ایسا کیا عمل کیا۔ جو یہ بچہ ٹھیک ہوگیا۔ اس نے کہا کچھ بھی تو نہیں۔ بس ایک سورۂ ہے۔ جو ہر بیماری کو ٹھیک کر دیتی ہے۔ بس وہ مجھے یاد تھی۔ میں نے پڑھ کر اپنے بچے پر دم کیا اور اس کا پانی پلایا۔

تو دیکھو کیسے ٹھیک ہوگیا ہمارا بچہ۔ اس کا شوہر بجاۓ خوش ہونے کے اس سے ناراض ہوگیا کہ یہ تم کیا جادو ٹونے کر رہی ہو۔ اس کی بیوی کہنے لگی زندہ صحیح سلامت ہے ہمارا بچہ ورنہ ہم سے بچھڑنے والا تھا۔ اس نے کچھ نہ سنا اور اپنی بیوی کو ڈانٹنے لگا۔ کیونکہ اسے اسلام سے نفرت تھی۔

جب اس کی بیوی یہی عمل کرنے لگی۔ تو اس کو اپنی بیوی سے بھی نفرت ہو گئی۔

اب اس نے اس پر ظلم کرنا شروع کر دیا۔ ہر روز اس کو مارتا پیٹتا اور کہتا کہ اب میں نے تیرے منہ سے یہ سورۂ سنی۔ تو یاد رکھنا تیری کھال کھینچ لوں گا۔ اس کو اللہ کے کلام پر بالکل یقین نہیں تھا۔ جبکہ اس کی بیوی کو اللہ کے کلام پر یقین ہو گیا۔

اب اس عورت کو اللہ تعالی نے کس طرح مدد کی یہ بھی بڑا ایمان افروز ہے۔ اس عورت کا شوہر جب گھر سے کام کرنے کے لیے نکلا۔ نکلتے وقت جب اس نے اپنا جوتا پہنا تو اس میں وہی بچھو مجود تھا۔ جس نے اس کے بیٹے کو کاٹا تھا۔ اس کے ڈنگ سے وہ بچہ تو بچ گیا۔ مگر خود نہ بچ سکا۔

کیونکہ جب بچھو نے اس کو کاٹا تو زہر پورے جسم میں پھیل گیا۔ اور تڑپ تڑپ کے وہیں دم توڑ گیا۔ خاندان میں یہ خبر پہنچی تو کہرام مچ گیا۔ اب شوہر دنیا سے جا چکا تھا۔

شوہر کے مرتے ہی اس کے گھر میں تو نوبت فاقوں تک آ گئی۔ وہ عورت قرض دار ہو کر رہ گئی۔ وہ بہت پریشان تھی۔ دل میں پھر وہی بات آئی کہ میں سورۃ فاتحہ کا ورد کرتی ہوں۔ کیا پتا میری پریشانیاں بھی دور ہو جائیں۔

پھر وہ زور زور سے سورۃ فاتحہ پڑھنے لگی۔ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے سورۃ فاتحہ کا ورد کرتی رہی اور اتنے اعتماد اور یقین سے پڑھتی رہی۔ جس کا کوئی حساب ہی نہیں تھا۔

جب کوئی بندہ اللہ تعالی سے امید لگاتا ہے تو اللہ تعالی اپنے بندوں کی دعاؤں کو رد نہیں کرتا۔ پھر یوں ہوا کہ سات دن کے اندر اندر اس کو خوشخبری مل گئی کہ اس کے کاروبار کو سنبھالنے کے لیے اس کے شوہر کا دوست آ گیا ہے۔

جب دوست کو خبر ملی کہ دوست کی بیوہ کا کوئی سہارا نہیں ہے۔ تو وہ اس کی بیوہ کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ فکر نہ کریں۔ وہ میرے بھائی کی طرح تھا۔ میں آپ کی مدد کروں گا اور جو بھی پریشانیاں ہیں وہ سب دور ہو جائیں گی۔

پھر اس شخص نے اس عورت کا سہارا بن کر اس کا پورا کاروبار سنبھال لیا۔ پھر دھیرے دھیرے جیسے زندگی پہلے تھی ویسے ہی ہو گئی۔ اس کے شوہر کے دوست نے اس عورت کو سورۃ فاتحہ پڑھتے ہوئے سن لیا۔ اس نے پوچھا کہ آپ کیا پڑھ رہی ہیں۔

کیا یہ کوئی منتر ہے؟ جس سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ مجھے بھی سکھائیے! اس پر وہ عورت کہنے لگی یہ کوئی منتر نہیں ہے۔ بلکہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید جو ان کے پیغمبر پر نازل ہوئی ہے۔ یہ اس میں سے ایک سورت ہے۔ جس کا نام سورۃ فاتحہ ہے۔

پھر کہنے لگی مجھے تو اس پر بہت یقین ہے۔ میں نے کسی سے یہ سورہ فاتحہ سیکھ لی تھی اور اب میں چلتے پھرتے یہ سورت پڑھتی رہتی ہوں۔ وہ شخص کہنے لگا کہ آپ مسلمان کیوں نہیں ہو جاتی۔ اگر اتنا ہی اس سورت کو مانتی ہے۔

وہ مزید کہنے لگا کہ ایک سورت کی اتنی تاثیر ہے۔ تو پورے قرآن کی کتنی تاثیر ہوگی۔ وہ عورت کہنے لگی کہ میں مسلمان تو ہو جاؤں۔ لیکن میرا شوہر نہیں مانتا تھا۔

اس شخص نے کہا کہ اب تو آپ کا شوہر بھی نہیں ہے اور ایک سورت کے ساتھ آپ کی محبت دیکھ کر میں اتنا زیادہ متاثر ہوا ہوں کہ میں بھی آپ کے ساتھ مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔ ہم دونوں قرآن مجید سیکھیں گے اور ضرور پڑھیں گے۔ وہ کہنے لگی جی! آپ نے بالکل صحیح کہا اور یوں وہ دونوں مسلمان ہوگئے۔

Inspiration Quotes in Urdu

0

Here are some inspirational quotes in Urdu

1. **”خود پر یقین رکھو، تم سب کچھ کر سکتے ہو جو تم سوچ سکتے ہو۔”**
*”Believe in yourself; you can achieve anything you think of.”*

2. **”جو لوگ خواب دیکھتے ہیں، وہ خواب پورے بھی کرتے ہیں۔”**
*”Those who dream are the ones who fulfill their dreams.”*

3. **”ہر مشکل کے بعد آسانی ہے، بس صبر رکھو۔”**
*”After every difficulty comes ease; just be patient.”*

4. **”زندگی میں سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ ہم کوئی خطرہ نہ لیں۔”**
*”The greatest risk in life is not taking any risks.”*

5. **”مواقع وہ ہیں جو تیار لوگوں کو ملتے ہیں۔”**
*”Opportunities come to those who are prepared.”*

6. **”خود کو جاننا سب سے بڑی کامیابی ہے۔”**
*”Knowing yourself is the greatest achievement.”*

7. **”سب سے بڑا راز یہ ہے کہ کبھی ہار نہ مانو۔”**
*”The biggest secret is to never give up.”*

8. **”دنیا کی سب سے بڑی طاقت صبر ہے۔”**
*”The greatest power in the world is patience.”*

9. **”نیک نیتی اور محنت سے کوئی بھی خواب حقیقت بن سکتا ہے۔”**
*”With good intentions and hard work, any dream can become reality.”*

10. **”سچی کامیابی وہ ہے جب آپ خود کو جانتے ہیں اور اپنے مقصد کی طرف بڑھتے ہیں۔”**
*”True success is when you know yourself and move towards your purpose.”*

11. **”کامیابی کبھی بھی حادثہ نہیں ہوتی، یہ ہمیشہ محنت اور عزم کا نتیجہ ہوتی ہے۔”**
*”Success is never an accident; it is always the result of hard work and determination.”*

12. **”جو خواب دیکھتے ہیں، وہ کبھی بھی حقیقت سے دور نہیں ہوتے۔”**
*”Those who dream never stay far from reality.”*

13. **”اپنی تقدیر کو خود بنانے کا ہنر سیکھو، دوسروں کی تقدیر پر انحصار مت کرو۔”**
*”Learn the art of creating your own destiny; don’t depend on others’ destinies.”*

14. **”مشکل راستے اکثر خوبصورت مقامات پر لے جاتے ہیں۔”**
*”Difficult paths often lead to beautiful destinations.”*

15. **”خوش رہنے کا راز اپنے دل میں سکون اور اعتماد رکھنا ہے۔”**
*”The secret to happiness is to keep peace and confidence in your heart.”*

I hope these quotes inspire and motivate you!

Motivational Quotes In Urdu | Inspirational Quotes | About Life Quotes| Best Hindi Love Quotes

Check the below quotes read and share with your friends

 

Inspiration Quotes in Urdu

خلوص اور عزت بہت مہنگے تحفے ہیں اس لئے ہر کسی سے

انکی امید نہ رکھو کیوں کے بہت کم لوگ دل کے امیر ہوتے ہیں

 

 

جنھیں احساس ہی نہ ہو ان کے ساتھ گلے کیسے شکوے کیسے

 

 

مجھے کوئی پروا نہیں دشمن کی بس مجھے نفرت ہے

ان لوگوں سے جو دوستوں کے لباس میں منافق ہوں

 

 

زندگی بہت خوبصورت ہوتی ہے اسے

بے کار لوگوں کے پیچھے برباد مت کریں

 

 

تنہا ہونا یہ نہیں ہوتا کے آپکے پاس کوئی نہیں ہے تنہا ہونا

دراصل یہ ہوتا ہے کہ سب آپ کے پاس ہیں لیکن آپ کا کوئی نہیں ہے

زندگی بہت خوبصورت ہوتی ہے اسے بے کار لوگوں کے پیچھے برباد مت کریں

 

 

اگر ہم سے غلطی ہوجائے تو ابلیس کی طرح دلیر نہیں ہونا چاہیے۔

بلکہ معافی مانگ لینی چاہیے کیونکہ ہم ابن آدم ہیں ابن ابلیس نہیں۔

 

 

نفرتیں پالنے والے لوگ بہت کمزور ہوتے ہیں

۔جن میں محبتیں نبھا نے کی سکت نہیں ہوتی۔

 

برباد کرنے میں اکثر انہیں کا ہاتھ ہوتا ہے

جو گلے لگا کر کہتے ہیں ہمیشہ خوش رہو۔

 

 

کسی کو صرف چاہنا محبت نہیں۔

اس کی ذات کے تما م پہلووٗں کو تسلیم کرنا محبت ہے۔

 

 

ہجوم کے ساتھ غلط راہ پر چلنے سے

بہتر ہے کے آپ تنہا راہ ہدایت پر چل پڑیں

 

 

آغاز پر اعتبار نہ کریں،

سچے الفاظ آخری لمحے میں کہے جاتے ہیں۔

حضرت عیسیٰ ؑ اور لالچی شاگرد کا واقعہ

0

حضرت عیسیٰ ؑ اور لالچی شاگرد کا واقعہ

حضرت عیسیٰ ؑ اور لالچی شاگرد کا واقعہ

 

 

حضرت عیسیٰ ؑ اور لالچی شاگرد کا واقعہ ایک دفعہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے شاگرد کے ساتھ ایک سفر پر جا رہے تھے۔راستے میں ایک جگہ آرام کی غرض سے رکے اور شاگرد سے پوچھا تمہاری جیب میں کچھ ہے۔ شاگرد نے جواب دیا “جی میرے پاس دو درہم ہیں”۔

حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنی جیب سے ایک درہم نکال کر شاگرد کو دیا اور فرمایا یہ تین درہم ہو جائیں گے۔ قریب ہی آبادی ہے تم وہاں سے تین درہم کی روٹیاں لے آؤ۔

شاگرد چلا گیا اور راستے میں واپس آتے ہوئے سوچنے لگا۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے تو ایک درہم دیا تھا اور دو درہم میرے تھے۔ جبکہ روٹیاں تین ہیں۔ ان میں سے آدھی روٹیاں حضرت عیسی علیہ السلام کھائیں گے اور آدھی روٹیاں مجھے ملیں گی۔ لہذا بہتر ہے کہ میں ایک روٹی پہلے ہی کھا لوں۔

چنانچہ اس نے راستے میں ہی ایک روٹی کھا لی اور باقی دو روٹیاں لے کر حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس پہنچا۔ حضرت عیسی علیہ السلام اور شاگرد نے جب کھانا کھالیا۔ تو حضرت عیسی علیہ السلام نے شاگرد سے پوچھا کہ تین درہم کی کتنی روٹیاں ملی تھی۔

شاگرد نے جواب دیا اے اللہ کے نبی دو روٹیاں ملی تھی۔ ایک آپ نے کھائی اور ایک میں نے کھائی۔ حضرت عیسی علیہ السلام خاموش ہو گئے۔ کچھ دیر بعد وہاں سے روانہ ہو گئے۔ راستے میں ایک دریا آیا شاگرد نے حیران ہو کر پوچھا اے اللہ کے نبی ہم دریا ابور کیسے کریں گے۔

جبکہ یہاں تو کوئی کشتی بھی نظر نہیں آ رہی-حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا گھبراؤ مت میں آگے چلوں گا تو میرا دامن پکڑ کر پیچھے چلتے آنا۔ خدا نے چاہا تو ہم دریا پار کر لیں گے۔ چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام نے دریا میں قدم رکھا اور شاگرد نے بھی ان کا دامن تھام لیا۔

اللہ کے حکم سے آپ نے دریا اس طرح سے عبور کر لیا کہ آپ کے پاؤں بھی گیلے نہ ہوئے۔ شاگرد نے دیکھ کر کہا میری ہزاروں جانیں آپ پر قربان ہوں۔ آپ جیسا صاحبہ اعجاز نبی پہلے کبھی معبوث ہی نہیں ہوا۔

حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا یہ معجزہ دیکھ کر تیرے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا۔ شاگرد نے جواب دیا جی ہاں! میرا دل نور سے بھر گیا ہے۔ پھر حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا اگر تمہارا دل نورانی ہو چکا ہے۔ تو بتاؤ روٹیاں کتنی تھی؟

شاگرد نے جواب دیا اے اللہ کے نبی روٹیاں صرف دو ہی تھی۔ پھر حضرت عیسی وہاں سے آگے چل دیے راستے میں ہرنوں کا ایک گول گزر رہا تھا۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے ایک ہرن کو اشارہ کیا۔ تو وہ آپ کے پاس چلا آیا۔ آپ نے اسے ذبح کر کے اس کا گوشت کھایا اور شاگرد کو بھی کھلایا۔

 

جب دونوں گوشت کھا چکے۔ تو حضرت عیسی علیہ السلام نے اس کی کھال پر ٹھوکر مار کر کہا کہ اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا۔ ہرن زندہ ہو گیا اور واپس دوسرے ہرنوں سے جا ملا۔ شاگرد یہ معجزہ دیکھ کر حیران ہوگیا اور کہنے لگا۔ اللہ کا شکر ہے کہ جس نے مجھے آپ جیسا نبی اور استاد عطا فرمایا-

حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا یہ معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا۔ 

 شاگرد نے کہا اے اللہ کے نبی میرا ایمان پہلے سے دگنا ہو چکا ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا پھر بتاؤ روٹیاں کتنی تھی۔ شاگرد نے پھر وہی جواب دیا اے اللہ کے نبی روٹیاں بس دو ہی تھی۔

عیسی علیہ السلام پھر آگے کی جانب چل پڑے۔ ایک جگہ پر قیام کیا۔ تو دیکھتے ہیں کہ ایک پہاڑی کے دامن میں سونے کی تین اینٹیں پڑی ہیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا ایک اینٹ میری ہے اور ایک اینٹ تمہاری ہے اور تیسری اینٹ اس آدمی کی ہے جس نے تیسری روٹی کھائی تھی۔

 

یہ سن کر شاگرد شرمندگی سے بولا تیسری روٹی میں نے کھائی تھی۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے اس لالچی شاگرد کو چھوڑ دیا اور جاتے ہوئے فرمایا تینوں اینٹیں تم لے جاؤ اور یہ کہہ کر عیسی علیہ السلام وہاں سے روانہ ہو گئے۔

اب لالچی شاگرد اینٹوں کے پاس بیٹھ کر یہ سوچنے لگا۔ انہیں کیسے گھر لے جایا جائے۔ اسی دوران کچھ ڈاکوؤں کا وہاں سے گزر ہوا۔ انہوں نے جب دیکھا کہ ایک شخص کے پاس سونے کی تین اینٹیں ہیں۔ تو انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ اور آپس میں کہنے لگے کہ اینٹیں تین ہیں اور ہم بھی تین ہیں۔ لہذا ہر ایک شخص کے حصے میں ایک ایک اینٹ آئے گی۔

اتفاق سے وہ تینوں ڈاکو بھی بھوکے تھے۔ انہوں نے ایک ساتھی کو پیسے دے کر کہا کہ شہر قریب ہی ہے۔ تم وہاں سے روٹیاں لے کر آؤ اور کھانا کھانے کے بعد ہم اپنا اپنا حصہ تقسیم کر لیں گے۔

چنانچہ وہ شخص روٹیاں لینے گیا اور دل میں سوچنے لگا۔ اگر میں روٹیوں میں زہر ملا دوں۔ تو باقی دونوں ساتھی مر جائیں گے اور میں تینوں اینٹوں کا اکیلا مالک بن جاؤں گا۔

جبکہ دوسری طرف اس کے دونوں ساتھیوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اگر ہم اپنے ساتھی کو قتل کر دیں۔ تو ہمارے حصے میں ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ آئے گی۔ جب ان کا تیسرا ساتھی زہر آلود روٹیاں لے کر آیا۔ تو انہوں نے منصوبے کے مطابق اس پر حملہ کر کے اس کو قتل کر دیا۔

قتل کرنے کے بعد انہوں نے خوشی میں سوچا کہ اب کھانا کھا لیں۔ ہمیں کھانا بھی زیادہ مل گیا اور سونا بھی۔ پھر جب انہوں نے روٹیاں کھائیں۔ تو وہ دونوں بھی زہر کی وجہ سے وہی مر گئے۔

 

پھر جب واپسی پر حضرت عیسی علیہ السلام اسی راستے سے گزرے۔ تو دیکھا کہ اینٹیں ویسی کی ویسی رکھی ہیں۔ جبکہ پاس چار لاشیں پڑی ہیں۔ آپ نے یہ دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھری اور پھر فرمایا دنیا اپنے چاہنے والوں کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہے

Albert Einstein Smart quotes in urdu

0

Albert Einstein Quotes in Urdu

Albert Einstein (1879–1955) was a theoretical physicist renowned for his contributions to science, particularly in the field of relativity. Here’s a brief overview of his life and achievements:

1. **Theory of Relativity**: Einstein is best known for his theory of relativity, which revolutionized the understanding of space, time, and gravity. His famous equation, \( E = mc^2 \), illustrates the relationship between energy (E), mass (m), and the speed of light (c).

2. **Photoelectric Effect**: He made significant contributions to quantum mechanics, particularly with his explanation of the photoelectric effect, which demonstrated that light can be understood as quanta or photons. This work earned him the Nobel Prize in Physics in 1921.

3. **Brownian Motion**: Einstein’s work on Brownian motion provided empirical evidence for the existence of atoms and molecules, further validating atomic theory.

4. **General and Special Relativity**: His theories of special relativity (1905) and general relativity (1915) fundamentally changed the understanding of gravity and the structure of the universe.

5. **Impact and Legacy**: Einstein’s ideas had a profound impact on the field of physics and beyond, influencing modern technology and the development of various scientific disciplines. He is often cited as one of the most influential scientists of all time.

6. **Public Figure**: Beyond his scientific work, Einstein was an outspoken advocate for pacifism, civil rights, and education. He emigrated to the United States from Germany in 1933 to escape the rise of the Nazi regime and spent the latter part of his career at the Institute for Advanced Study in Princeton, New Jersey.

7. **Cultural Icon**: Einstein’s name and image have become synonymous with genius and intellectual achievement, making him a cultural icon and a symbol of scientific innovation.

Einstein’s work continues to influence various fields, and his theories remain central to our understanding of the universe.

 

Albert Einstein Smart quotes in urdu

 

 

میں ان سب لوگوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے میری مدد نہیں کی

آج انہی کی بدولت میں سب کچھ خود کیا۔

 

 

جس نے کبھی کوئی غلطی نہیں کی اس نے کبھی کچھ

نیا بھی نہیں کیا۔

 

 

بعض اوقات کوئی شکست ایسی بھی ہوتی ہے

جس کے دامن میں فتح سے زیادہ کامیابیاں

ہوتی ہیں

 

 

کامیابی حاصل کرو لیکن پیسے کے لئے

نہیں بلکہ اپنی پہچان کے لئے

 

 

میں کبھی مستقبل کے بارے میں نہیں

سوچتا کیونکہ وہ فوراََہی آجاتا ہے

 

 

میں خوش رہتا ہوں کیونکہ میں کسی 

ے کوئی امید نہیں رکھتا

 

 

زندگی میں کامیابی اتنی حاصل کرو کے 

بار پیچھے موڑ کر دیکھو تو حیران رہ جائو

 

 

ہم اپنی مشکلات کو اس سوچ کے ساتھ کبھی ختم نہیں کر سکتے

جس سوچ کی وجہ سے ان مشکلات نے جنم لیا

 

 

آپ کبھی ناکام نہیں ہوتے جب تک آپ

کوشش کرنا نہیں چھوڑتے

 

 

تعلیم حقائق کو سیکھنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ دماغ کو

سوچنے کے قابل بنانے کے لئے ایک ترتیب کا نام ہے

 

 

میں باقی لوگوں سے زیادہ ذہیں نہیں ہوں میں بس اپنی

مشکلات کے ساتھ باقی لوگوں کی نسبت زیادہ وقت گزارتا ہوں

 

 

کامیاب شخص بننے کی کوشش نی کریں بلکہ

اصولوں کے حامل شخص بننے کی کوشش کریں

 

 

 

ذہیں افراد مسائل حل کرتے ہیں اور

فطین ان سے اپنی جان بچاتے ہیں

 

 

میرا اس پر کامل یقین ہے کہ خدا کائنات کا نظام

چلانے کے لئے پانسہ نہیں پھینکتا

 

 

عظیم لوگوں کو ہمیشہ معمولی سوچ والے لوگوں

کی پر تشدد مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے

 

 

انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا ہے،نہ

کہ اس کے مطابق کیا ہونا چاہیے

 

 

جوچھوٹی چھوٹی باتوں میں سچائی کو سنجیدگی سے

نہیں لیتے ،بڑےمعاملات میں بھی اس پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا

 

 

بہت کم ایسے ہیں جو اپنی آنکھوں سے دیکھتے

ہیں اور اپنے دل سے محسوس کرتے ہیں

 

 

ہم سب خدا کے سامنے یکساں ذہین ہیں اور

یکساں ہی بیواقوف بھی

دفن کئے ہوئے خزانے کا معمہّ

0

دفن کئے ہوئے خزانے کا معمہّ

 

دفن کئے ہوئے خزانے کا معمہّ

 

دفن کئے ہوئے خزانے کا معمہّ ایک دفعہ کاذکر ہے، کہ ایک نہایت محنتی کسان جس کا نام رحیم تھا ، ایک ذرعی گاؤں میں رہتا تھا جو کہ پاکستان کے ذرخیز صوبہ پنج میں واقع تھا۔رحیم کے چار بیٹے تھے۔ انکے نام تھے اکبر، اصغر، ناصر اور بابر جو کہ چارو ں میں سب سے چھوٹا تھا۔ 

یہ چار کہ یہ چاروں اپنا زیادہ تروقت کھیلنے اور شرارتیں کرنے میں گزارتے تھے۔ جب ہمسائے میں رہنے والے لوگ ان بھائیوں کی شرارتوں سے تنگ آ جاتے تو وہ رحیم سے ان کی شکایت کرتے،تب وہ سب شرارتی بھائی بھولے بھالے بن جاتے اور وعدے پر قائم رہنے کا ارادہ کئے بغیر ہمسایوں سے معافی بھی مانگ لیتتے

گاؤں میں ایک پرائمری سکول تھا۔ رحیم نے اپنے چاروں بیٹوں کو وہاں اس امید میں داخل کرا دیا کہ ان کے اندر کوئی نظم و ضبط قائم ہوگا۔ مگریہ سب بھائی روزانہ سکول بہت دیر سے جاتے۔ اور استاد خواہ کتنی دفعہ ڈانٹ ڈپٹ کرتے ،مگر وہ اپنے طور طریقے نہ بدلتے۔

رحیم بہت ہی رحم دل انسان تھااور اس نے کبھی اپنے بیٹوں کے ساتھ سخت کلامی نہیں کی ، بلکہ وہ ان کے پاس بیٹھ جاتا اور ان کو دلائل دے کر سمجھانے کی کوشش کرتا ۔ ’ پیارے بیٹو ! ‘ رحم دل والد نے ایک دن بہت پیار سے کہا۔ ’تم لوگ ابھی بہت کمسن ہو، اور اپنا تمام وقت کھیل کود میں گزارتے ہو۔ لیکن اگر تم نے اس عمر میں محنت کرنا نہ سیکھا تو جب تم لوگ بڑے ہو جاؤگے تو کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہو گے ‘ ۔ سب بیٹے یک زبان ہو کر بڑے جوش سے کہتے ۔ ’ ابا جان ! آپ بالکل فکر نہ کریں ہم بہت جلد سب کچھ سیکھ لیں گے، ہم وعدہ کرتے ہیں ‘۔

 

لیکن جیسے ہی ان کے والد انہیں ایک اور موقعہ دینے کے لئے راضی ہو تے تو چاروں بھائی اپنا وعدہ فوراً بھول جاتے۔ اور جلد ہی اپنے

 پرانے طور طریقوں پر اتر آتے،اور وہ جدھر بھی نکل جاتے شرارتیں کرتے ،تباہی اور بربادی ڈھاتے نظر آتے۔ اگر کوئی ان سے کوئی کام کرنے کے لئے کہتا تو وہ سب طرح طرح کے بہانے بنا دیتے ، جب کہ در اصل یہ چاروں بھائی نہایت سست اور کاہل تھے۔

پھر اسی طرح دن، مہینے اور سال گزر گئے اور یہ چاروں بڑھ کر جوان ہو گئے ۔ انہوں نے پڑھنا لکھنا بالکل نہ سیکھا اور نہ ہی انہوں نے کھیت پر کوئی کام والد کی مدد کے لئے کیا۔ وہ ہمیشہ ایک دوسرے کو اپنی من گھڑت فضول باتوں اور مشکلات کے لئے الزام دیتے رہتے۔ اور ان میں سے کسی ایک نے بھی، کبھی ایک دفعہ بھی اپنے برے طور طریقے کے لئےاپنی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

آخر رحیم ایک ضعیف اور بوڑھا آدمی ہو گیا مگر وہ پھر بھی کھیت پر سارا دن خود اکیلا ہی کام کرنے پر مجبور تھا۔ یہ کام ایک بوڑھے آدمی کے لئے بہت محنت کا تھا ، اور رحیم کو وہ دن بہت مشکل لگنے لگےتھے۔

 

فصل کی پیداوار میں بھی کمی آ گئی اور اس کے ساتھ ہی اس دولت میں بھی جو کہ وہ فصل کو منڈی میں بیچ کر حاصل کر سکتا تھا۔ رحیم اور اس کی بیوی اپنے مستقبل کے بارے میں بہت پریشان تھے، مگر وہ چاروں بھائی ان واقعات کےبارے میں بالکل بھی پریشان نہ ہوتے تھے۔ کبھی کبھار وہ کھیت میں اپنے والد کی مدد کرنے چلے جاتے،لیکن زیادہ تر اپنے بچاؤ کی خاطر بہانے بناتے رہتے۔وہ تمام دن صرف نکمےّ بیٹھے رہتے، کھاتے پیتے اور آرام سے سوتے۔

اگرکبھی کوئی اکبر سے کہتا کہ وہ کھیت پر جا کر اپنے والد کی مدد کرے،تو وہ کہتا کہ ’ دوسرے تینوں میں سے کوئی جا کر مدد کرے کیوں کہ میرے تو سر میں درد ہے‘ وغیرہ، وغیرہ ۔اسی طرح ہر ایک بھائی کو جب بھی کوئی کسی کام کرنے کو کہتا تو وہ اسی قسم کا بہانہ بنا دیتا، اور ان میں سے ہر ایک اپنے دوسرے بھائیوں میں سے کسی ایک کو وہ کام کرنے کے لئے پیش کر دیتا۔

پھر ایک وقت ایسا آیا کہ رحیم واقعی اس قدر ضعیف اور بیمار ہو گیا کہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہا ، اور اس نے حقیقت میں یہ محسوس کیا کہ وہ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکے گا۔ رحمدل باپ اپنے ناکارہ بیٹوں کے بارے میں بہت فکر مند ہو گیا، اور اس کے دماغ کو بہت سے مشکل سوالات نے گھیر لیا۔ اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ جب وہ نہیں ہو گا تو ان کا کیا ہو گا؟ انہوں نے کوئی ہنر نہیں سیکھا تھا اس لئے وہ اپنے لئے روزی کیسےمہیاّ کر سکیں گے؟ ان کے برے اعمال کے باوجود رحیم اپنے بیٹوں کو دل سے چاہتا تھا اور ان کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے وہ بچارہ ضعیف آدمی بہت ہی غور سے یہ سوچنے لگا کہ کیا کیا جائے؟

بہت دیر غور کرنے کے بعد رحیم کو ایک منصوبہ سمجھ میں آیاجس کے بارے میں اس نے خیال کیا کہ شاید وہ کار آمد ہو سکے، پھر وہ خود بخود مسکرایا اور اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ اس کے چاروں بیٹوں کو بلا کر لائے تا کہ وہ اس کے سامنے آ کر بیٹھیں۔ اور اس سے پہلے کہ وہ قبر میں جا سوئے، انہیں اپنی وصیتّ سنائے اور نصیحت کے چند الفاظ بھی کہہ سکے۔ رحیم کی بیوی یہ سن کر بہت پریشان ہو گئی کیونکہ وہ اپنے خاوند کو بہت چاہتی تھی۔ بہر حال اس نے اپنے بیٹوں کو بلایا اور انہیں ان کے والد کی خواہش کے بارے میں بتایا۔ چاروں بھائیوں کو اس بات کا بہت صدمہ ہوا کہ ان کا باپ فوت ہو جائے گا۔ وہ اپنے والد کے قدموں کے پاس اس کی آخری وصیتّ سننے کے لئے بیٹھتے ہی رونے اور آہ و زاری کرنے لگے۔

 

’ پیارے بیٹو ! ‘ رحمدل باپ نے کہا ۔ ’ میں نے زندگی بھر تم سے محبت کی اور تمہاری دیکھ بھال کی ۔ میں نےواقعی پوری کوشش کی کہ تم خوشی اور آرام و آسائش سے رہو اور میں تمہاری حفاظت کرتا رہا ، لیکن اب میں بوڑھا اور بیمار ہوں اور جانتا ہوں کہ میں جلد ہی مر جاؤں گا ‘۔ بوڑھا پھرکھانسنے لگا، اسکی سانس میں خرخراہٹ تھی ۔ اوراب چاروں بھائی خود دیکھ سکتے تھے کہ ان کا باپ حقیقت میں بہت بیمار تھا۔ ’ لیکن میں نے ایک بہت بڑا خزانہ تم لوگوں کے لئے بچا رکھا ہے‘۔ رحیم نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا۔’ تا کہ تمہاری زندگی میرے جانے کے بہت عرصے بعد تک بھی آرام سے گزرتی رہے‘۔

’بہت زمانہ گزرا ، میں نے اپنے کھیت کی زمین میں کسی جگہ ایک بہت بڑا اور بہت گہرا گڑھا کھودا۔ پھر میں نے اس گڑھے میں اس

 خزانے کو اس وقت کے لئے کہ جب تمہیں اس کی ضرورت پڑے،حفاظت کے ساتھ دفن کر دیا۔ لیکن اب مجھے بالکل یاد نہیں رہا کہ وہ کس جگہ پر ہے‘۔

چاروں بھائی ایک دوسرے کی طرف تعجب سے دیکھنے لگے، لیکن وہ اپنے باپ کے خزانے کے تصوّر سے کافی خوش بھی نظر آ رہے تھے۔

 

’میرے مرنے کے بعد تمہیں اس کا سراغ لگانا ہوگا اور اسے کھود کر نکالنا ہوگا ‘۔ رحیم نے بات جاری رکھی ۔’ پھر تم اپنے چچا سے جو کہ اس وقت خاندان میں سب سے بڑے ہوں گے، درخواست کرنا کہ وہ اس خزانے کو تم چاروں کے درمیان برابر حصوّں میں تقسیم کر دیں۔ اس کے لئے آ پس میں جھگڑے مت کرنا، اپنے چچا کے فیصلے کی تعظیم کرنا۔ یاد رکھو کہ اپنے بڑوں کی عزّت کرنا ہماری تہذ یب کا ایک اہم حصہّ ہے۔ تمہیں ان کی عزّت کرنے کو اپنا فرض سمجھنا چاہیئے‘۔

چاروں بھائی کھیت میں دفن کئے ہوئے خزانے کو فوراً ہی ڈھونڈ نے کے لئے مضطرب نظر آنے لگے۔ رحیم نے یہ ظاہر کیا کہ اس نے اپنے بیٹوں کے اس روّیئے کو دیکھا ہی نہیں، اور اس نے اپنی تقریر جاری رکھی۔

’ ایک اور نصیحت جو کہ میں تمہیں د ینی چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کبھی مت لڑنا، تمہارے دشمن تمہیں منصوبہ بندی اور ساز باز کرنے کے لئے اکسائیں گے ،لیکن کچھ بھی ہو جائے تم چاروں ہمیشہ متحد رہنا۔ مل جل کر تم سب بہت طاقت ور رہوگے اور کوئی بھی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ اور کسی کو بھی اس خزانے کے بارے میں اس وقت تک مت بتانا جب تک تمہیں وہ مل نہ جائے‘۔

جب رحیم نے اپنی تقریر ختم کی تو اس نے آ نکھیں بند کر لیں،پھر وہ جلد ہی فوت ہو گیا۔اپنے والد کے جنازے اور تدفین کے بعد ان بھائیوں نے اپنے کھیت کے دوسرے سرے سے کھودنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے اب تک اپنی زندگی بہت سستی، کاہلی ، آرام اور آ سائش میں گزاری تھی اس لئے کھیت کےتھوڑے سے حصےّ کو کھودنابھی ان کو بہت مشکل لگا۔ سست اور کاہل سب بھائی جلد ہی ہار کر گھر پر آرام کرنے کے لئے چل دیئے۔

 

اگلے دن پھر ایسا ہی کیا۔پھر اس سے اگلے دن، اور اس سے بھی اگلے دن ایسے ہی کرتے رہے، یہاں تک کہ آہستہ آہستہ مگر یقیناً کھیت کا زیادہ تر حصہّ بھائیوں نے کھود ہی لیا۔ ان کو اسی طرح کام کرتے مہینہ بھر اورگزر گیا مگر انہیں دفن کیا ہوا خزانہ

نہیں ملا۔ وہ کسی اور سے اس کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہتے تھے اور نہ ہی کسی کی مدد لینا چاہتے تھے، کیوں کہ وہ اس خزانے میں کسی اور کو حصہ دار نہیں بنانا چاہتے تھے۔ وہ سب کھدائی کرتے کرتے بہت تھک گئے تھے مگر ان میں سے کوئی بھی اس خزانے کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔

آخر کار بھائیوں نے غور کیا کہ انہوں نے پورا کھیت کھود ڈالا لیکن خزانے کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ تب انہوں نے خیال کیا کہ ان کے باپ نے خزانہ بہت ہی گہرا دفن کیا ہو گا۔ اس لئے انہوں نے اور بھی زیادہ گہراکھودنے کا فیصلہ کر لیا ۔ ایک اور مہینہ گزر گیا مگر دفن کئے ہوئے خزانے کا کوئی نشان بھی نہیں تھا!

سارا کھیت اب پوری طرح نیچے سے اوپر ہو چکا تھا اور ہمسائے بھی ان بھائیوں کی محنت پر رشک کرنے لگے تھے۔

 

آخر کار چاروں بھائیوں نے دفن کئے ہوئے خزانے کو کبھی بھی پا لینے کے خیال کو ترک کر دیا۔ مگر یہ دیکھ کر کہ انہوں نے کھیت کو اتنی اچھی طرح تیار کر لیا تھا ، اس لئے انہوں نے وہاں پر اس موسم میں گیہوں کی کاشت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جب فصل کاٹنےکا زمانہ آیا تو اس کھیت میں بہت اعلیٰ درجے کا اور بہت مقدار میں گندم پیدا ہوا، جس کو وہ سب بھائی منڈی میں لے گئے اور اسے ہزاروں روپوں میں فروخت کر دیا۔

اپنےوالد کی نصیحت پر چلتے ہوئے سب بھائی اپنی کمائی ہوئی دولت کو اپنے چچا کے پاس لے گئےاور ان سے اس رقم کو چاروں میں برابر تقسیم کرنے کی درخواست کی۔ ان کے چچا چاروں بھائیوں پر فخر کرنے لگے اور بولے ، ’ شاباش ! میرے بھتیجو ! تم نے آخر کار یہ ثابت کر دیا کہ تم میرے محنتی بھائی رحیم کے محنتی بیٹے ہو۔ یہ کھیت جو میرا بھائی تمہارے لئے چھوڑ گیا ہے وہ خود ہی ایک خزانہ ہے۔ اور اگر تم اسی طرح محنت کرتے رہوگے تو تم اس کا ہمیشہ انعام پاتے رہوگے ‘۔

اگلے سال چاروں بھائیوں نے محنت کرکے پھر گندم کی کاشت کی۔ اس دفعہ پیداوار پہلے سے بھی بڑھ کر ہوئی۔اور جب انہوں نے یہ گندم منڈی میں فروخت کی تو انہوں نے پہلے سے بہت زیادہ رقم بنائی۔

کچھ سال تک اسی طرح کام کرنے کے بعد چاروں بھائی کافی امیر ہو گئےاور اپنے کام میں بھی خوش رہنے لگے۔آخر کار یہ واضح ہو گیا کہ اکبر ، اصغر ، ناصر اور بابر نے دفن کئے ہوئے خزانے کے معمےّ کو حل کر لیا، کہ اصل خزانہ تو محنت اور ترتیبی نطام کا صلہ تھا۔چاروں بھائی اپنے والد کی ہوشیاری اور دور بینی پر فخر کرتے تھے، کیوں کہ صرف وہی تھا کہ جس نے ان کو محنت ، نظم و ضبط ، اتحاد اور اپنےبڑوں کی تعظیم کی فضیلت کا سبق دیا تھا۔

 

Beautiful Quotes In Urdu

0

Best Urdu quotes check the below

 

Beautiful Quotes In Urdu

 

یہ محبت کے حادثے اکثر دلوں کو توڑ دیتے ہیں تم منزل کی بات کرتے ہو لوگ راہوں میں چھوڑ دیتے ہیں

 

 

علاقہ غیر کو سیراب کر رہی تھی وہ نہر رسیلے ہونٹ کہیں اور خشک ہو رہے تھے

 

 

مجھے صبر کرنے کی دیر ہے تم اپنا مقام کھو دو گے

 

 

قیامت خیز ہیں آنکھیں تمہاری تم آخر خواب کس کے دیکھتی ہو

 

 

تیری حسرت میرے دل میں یوں بس گئی ہے جیسے اک آندھے کو حسرت آنکھوں کی

 

 

زندگی میں سب لوگ رشتہ دار یا دوست بن کر نہیں آتے کچھ لوگ سبق بن کر بھی آتے ہیں

 

 

پھر کہی بھی پناہ نہیں ملتی محبت جب بے پناہ ہوجائے

 

 

وہ ایک پل کو دکھائی تو دے میں جان گنوا کے بھی اُس پل کو مختصر نہ کروں

 

 

گزار دیتا ہو ہر موسم مسکراتے ہوے ایسا بھی نہیں کے بارشوں میں تو یاد آیا نہیں

 

کچھ دل کی مجبوریاں تھیں کچھ قسمت کے مارے تھے ساتھ وہ بھی چھوڑ گئے جو جان سے پیارے تھے

بندر بادشاہ اور بھوت

0

بندر بادشاہ اور بھوت

 

بندر بادشاہ اور بھوت

 

بندر بادشاہ اور بھوت ایک گھنے جنگل میں بندروں کا ایک گروہ رہتا تھا۔ بندروں کا بادشاہ بہت عقلمند تھا۔ ایک دن اس نے اپنے گروہ کو اکٹھے بلایا۔
میرے پیارے بندرو ہم خوش قسمت ہیں کہ اس خوبصورت جنگل میں رہتے ہیں لیکن خبردار! درخت اور پودے ہرے بھرے اور سرسبز ہو سکتے ہیں لیکن ان میں ‘
بہت سے زہریلے پھل ہوتے ہیں۔ تالاب صاف، چمکتا ہوا پانی ہو سکتے ہیں لیکن ان میں سے ایک میں بھوت رہتا ہے۔ اس لیے پہلے مجھ سے پوچھے بغیر کچھ نہ کھاؤ اور نہ پیو۔’

اگلے دن ایک بندر کو پیاس لگی۔ اسے بادشاہ کی بات یاد آئی اور وہ اس سے بات کرنے چلا گیا۔

‘بچے فکر نہ کرو!’ بادشاہ نے کہا۔ ‘میں تالاب کی چھان بین کروں گا کہ یہ محفوظ ہے’۔

جب وہ تالاب کے قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ بڑے بڑے قدم اندر جا رہے ہیں لیکن باہر نہیں آرہے ہیں۔ بادشاہ نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں بھوت چھپا ہوا تھا۔ سب بندر رونے لگے، اس فکر میں کہ وہ پانی کیسے پئیں گے۔ بادشاہ نے انہیں تسلی دی اور بھوت کا مقابلہ کرنے چلا گیا۔

بھوت نے قہقہہ لگایا، ‘تم بڑے مخمصے میں ہو، بندر بادشاہ! اگر تمھارے بندر تالاب میں آئے تو میں انہیں کھا لوں گا۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو وہ پیاس سے مر جائیں گے!’

بادشاہ نے سوچا،’ مجھے کوئی حل تلاش کرنا چاہیے۔’

اس نے اپنے بندروں سے بانس کے ٹکڑے جمع کرنے کو کہا۔ کھوکھلی بانس کی چھڑیوں کو آپس میں جوڑ کر اس نے ایک بڑا پائپ بنایا جو تالاب کا پانی چوستا تھا۔ بندر اپنے دل کی خواہش کے مطابق پینے کے قابل تھے۔

‘سب کی طرف سے بندر بادشاہ کو سلام!’ بندروں نے نعرے لگائے۔

وہ بھوت جسے بندر بادشاہ نے اپنی سمجھداری سے شکست دی دی تھی وہ لمبے چہرے کے ساتھ تالاب میں واپس چلا گیا!

جب چیزیں مشکل لگیں تو کبھی ہمت نہ ہاریں، بندر بادشاہ کی طرح با صبر اور ہوشیار رہیں

Attitude Quotes in Urdu

0

Attitude Quotes in Urdu

Utilizing attitude quotes in Urdu is an extraordinary way to deal with get in that frame of mind. Being a genuine model for others is a certain something, yet setting a genuine model for oneself is very another. On the off chance that you don’t set the best model for yourself, nothing else has much of any meaning. You really want to have an inspirational perspective on yourself and others in the event that you wish to have a prosperous future.

Little else will do. Young ladies ought to be informed that they don’t have anything to be embarrassed about in light of the fact that they are really bending over backward to work on themselves by the best demeanor quotes in Urdu. Energy and appreciation are the best ways of showing this attitude.

Young mens attitude quotes in Urdu ought to energize them by advising them that they can achieve anything they put their energy into. They ought to be informed that there are no limitations on what they might achieve and that nothing is untouchable.

Continuously set forth your day’s energy today. What will endure forever is currently. Today, you can glean some significant experience. By remembering these mentalities, you should rest assured that you are giving your very best for your kid’s future.

The following are the best disposition quotes

 

Attitude Quotes in Urdu

جو باتیں تکلیف دیں انھیں دل میں رکھنے کی بجاے پاؤں کے نیچے رکھیں

 

 

جس معاشرے میں اچھی اور معیاری تعلیم مہنگے داموں بیچی جائیں

وہاں قوم کی فکر کرنے والوں کے بجاے

ذریعہ معاش کی فکر کرنے والے ہی پیدا ہوتے ہی

 

 

باپ کی دولت پر گھمنڈ کرنے کا کیا مزا مزا تو

تب ہے جب دولت اپنی ہو اور فخر باپ کرے۔

 

 

انسان کی تربیت کا فرق ہوتا ہے

ورنہ جو سن سکتا ہے

وہ سنا بھی سکتا ہے

 

بولنا سبکو آتا ہے بس کسی کا دماگ بولتا

کسی کا اخلاق بولتا ہے اور کسی کی زبان

 

 

علی انگوٹھا

0

علی انگوٹھا

علی انگوٹھا

علی انگوٹھا ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جوڑے کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جسے وہ علی کہتے تھے۔علی 
بچہ اپنے والدین کے لیے خلاف توقع تھا، کیونکہ جب وہ پیدا ہوا تو وہ انگوٹھے سے بڑا نہیں تھا
ماں اور باپ دونوں شروع میں بہت پریشان تھے، لیکن پھر انہوں نے خود سوچا
‘ یہی ہمارے لیے خدا کی دین ہے، اور ایک دن ہمارا بیٹا بڑا، مضبوط لڑکا بنے گا۔’

لیکن سال گزرتے گئے اور علی بالکل نہیں بڑھا۔ وہ انگوٹھے کی طرح چھوٹا رہ گیا۔

ہر شام رات کے کھانے پر ماں اپنے بیٹے کے لیے میز پر جگہ رکھ دیتی۔

وہ اس کے سامنے ایک چھوٹی سی پلیٹ رکھ دیتی اور اس میں ایک چائے کا چمچ سوپ سے بھرتی۔

علی کے پاس ایک چھوٹا سا پیالہ بھی تھا جسے اس کی ماں پانی کے ایک قطرے سے بھر دیا کرتی تھی

گھر والے جب گھر پر ہوتے تھے تو سب ٹھیک تھا لیکن ماں باپ اپنے بیٹے کی وجہ سے شرمندہ تھے تھی، یہ سوچ کر کہ اگر کسی نے اسے دیکھا تو وہ نوجوان لڑکے کو چھیڑیں گے۔ اس لیے انہوں نے اسے گھر کے اندر ہمیشہ نظروں سے پوشیدہ رکھا ہوا تھا۔

مزید کئی سال گزر گئے اور بالآخر علی نے اپنی بیسویں سالگرہ منائی۔

وہ ابھی بھی انگوٹھے کی طرح چھوٹا تھا، لیکن اس کی آواز بہت گہری اور بہت بلند ہو چکی تھی۔

درحقیقت اگر کبھی کوئی ان کے بیٹے کو بولتے ہوئے سنتا تو وہ سمجھتا کہ یہ کسی بڑے آدمی کی آواز ہے۔

علی ایک بہت اداس نوجوان تھا کیونکہ اس کا کوئی دوست نہیں تھا اور اسے اپنا سارا وقت اپنے والدین کے گھر کے اندر چھپ کر گزارنا پڑتا تھا۔

ایک دن علی کے والد اگلے قصبے میں بازار جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ بوڑھے آدمی نے رات ہوٹل میں گزارنے کا ارادہ کیا کیونکہ وہ رات ہونے سے پہلے وہاں  تککا اور واپسی کا سفر نہیں کر سکتے تھے۔

علی نے اپنے والد سے التجا کی کہ اسے سفر میں ساتھ لے جائیں، لیکن اس کے والد اس خیال سے بہت پریشان نظر آئے۔

اس نے کہا، ‘ہم نے آج تک آپ کو کبھی باہر نہیں نکالا اور مجھے یقین نہیں ہے کہ میں اب ایسا کر سکتا ہوں۔’ ‘میں آپ کی حفاظت کیسے کر سکتا ہوں اور آپ کو دوسرے لوگوں سے کیسے چھپا سکتا ہوں؟

‘یہ آسان ہو جائے گا،’ علی نے اپنی گہری، تیز آواز میں جواب دیا۔ ‘آپ مجھے اپنی جیب میں رکھ سکتے ہیں اور کوئی نہیں جان سکے گا کہ میں وہاں ہوں۔ آپ کپڑے میں تھوڑا سا سوراخ کر سکتے ہیں تاکہ میں سانس لے سکوں اور میں دیکھ سکوں کہ کیا ہو رہا ہے اور دنیا کے تمام نئےنظاروں سے لطف اندوز ہو سکوں۔’

علی کے والد نے محسوس کیا کہ علی گھر سے نکلنے کے خیال سے کتنا پرجوش تھا، اور اس وجہ  سے اس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو نہ کہنا ناممکن پایا۔

بوڑھے آدمی نے اپنی قمیض کی جیب میں ایک بہت چھوٹا سوراخ کیا اور علی کو اندر چڑھنے میں مدد کی۔

ماں نے سفر کے لیے تھیلے حوالے کیے اور دونوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ پھر علی اور اس کے والد پڑوسی شہر کے بازار کی طرف روانہ ہوئے۔

سارا دن سفر کرنے کے بعد علی اور اس کے والد سڑک کے کنارے ہوٹل پہنچے۔

والد نے کہا، ‘ہم یہاں رات کے لیے ایک کمرہ حاصل کر لیں گے، اور کل ہم گھر واپس جانے سے پہلے صبح سویرے بازار جائیں گے۔’

‘میں یقین نہیں کر سکتا کہ مجھے ہوٹل میں ٹھہرنا پڑے گا!’ علی نے کہا۔

نوجوان بہت پرجوش تھا کیونکہ اس نے اپنے سفر میں بہت کچھ دیکھا تھا اور وہ اپنے گھر کے علاوہ کہیں نہیں سویا تھا۔

علی کے والد نے ایک کمرے کے لیے ادائیگی کی اور رات کے کھانے کی تیاری کے لیے اپنا بیگ سیڑھیوں سے اوپر لے گئے۔

 

بوڑھے آدمی کے سامان کھولنے اور نہانے کے بعد، اور علی کو ابھی تک اپنی جیب میں چھپا کر، وہ اس امید کے ساتھ کھانے کے کمرے میں چلا گیا کہ شاید وہ اپنے چھوٹے بیٹے کے لیے بھی کچھ کھانے کا سامان لے آئے۔

پھر کچھ بہت غیر متوقع ہوا۔ جیسے ہی تمام مہمان رات کے کھانے پر بیٹھے چوروں کا ایک گروہ ہوٹل میں داخل ہوا۔

بے رحم دکھائی دینے والے مردوں نے، جو کہ تین تھے،  بندوقیں اٹھائیں اور حکم دیا کہ ہر مرد اور عورت اپنی رقم اور جو بھی قیمتی سامان ان کے پاس ہے، وہ حوالے کردیں۔

تمام مہمان بہت خوفزدہ تھے جن میں علی کے والد بھی شامل تھے، لیکن انہوں نے ایسا ہی کیا جیسا کہ انہیں کہا گیا تھا، اور اپنے بٹوے اور زیورات کو چوروں کو دینےکے لیے میزوں پر رکھنے لگے۔

اچانک کہیں سے ایک بہت تیز اور بہت گہری آواز آئی۔

‘اپنی بندوقیں نیچے کرو!’ آواز نے حکم دیا. ‘میں وہاں آ رہا ہوں اور میں تمہیں پکڑ کر پولیس کے حوالے کرنے جا رہا ہوں۔’

کوئی نہیں جانتا تھا کہ آواز کہاں سے آرہی ہے۔ چوروں نے کھانے کے کمرے کے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن کوئی شخص تلاش نہ کر سکے۔

پھر آواز آئی، اس بار  پہلے سے بھی اونچی آواز میں۔ ‘میں تم سے تمہاری شرارتوں کا بدلہ  لوں گا۔ میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ تم کئی سال جیل میں گزارو ۔’

چونکہ چور یہ نہیں بتا سکتے تھے کہ آواز کہاں سے آرہی ہے، اس لیے انہوں نے خود کو باور کرایا کہ اس کا تعلق کسی بھوت سے ہے۔

اور اگر چوروں کو پولیس سے بھی زیادہ کسی چیز سے ڈر لگتا تھا تو وہ بھوت تھے ۔

علی انگوٹھا اچانک، چور اپنی بندوقیں چھوڑ کر ہوٹل سے بھاگے اور اندھیرے میں غائب ہو گئے۔

اگرچہ مہمان خوش تھے کہ ڈاکو بھاگ گئے ہیں لیکن وہ بھی بھوتوں سے ڈر کر اپنے کمروں میں بھاگ کر چھپ جانا چاہتے تھے۔

‘فکر نہ کرو،’ علی کے والد نے کہا۔ ‘یہ کوئی بھوت نہیں ہے جو بات کر رہا ہے۔ یہ میرا بیٹا ہے۔’

اور اس کے ساتھ ہی بوڑھے آدمی نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تاکہ علی اس کے ہاتھ پر چڑھ جائے۔ پھر اس نے علی کو آہستہ سے میز پر بٹھایا تاکہ تمام مہمان ہیلو کہہ سکیں۔

علی انگوٹھا ‘مجھے یقین ہے کہ ڈاکو واپس نہیں آئیں گے،’ علی نے اپنی گہری، تیز آواز میں کہا، اس کے چہرے پر ان تمام مہم جوئیوں کی وجہ سے ایک بڑی مسکراہٹ تھی۔

مہمان ایک ایسے لڑکے سے ملنے کے لیے بہت حیران اور بہت متجسس تھے جو انگوٹھے سے بڑا نہیں تھا۔

لیکن سب سے بڑھ کر، وہ سب علی کے بہت شکر گزار تھے کہ اس نے انہیں چوروں سے بچا لیا، اور انہوں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اس سے ہاتھ ملایا اور اس کے والد سے کہا کہ انہیں اتنا بہادر بیٹا ملنے پر کتنا فخر ہوگا۔

صبح جب وہ بازار کے لیے ہوٹل سے نکلے تو علی کے والد نے اپنے چھوٹے بیٹے کو جیب سے نکال کر اپنے کندھے پر بٹھا لیا۔

ساری صبح بازار میں، اور پھر گھر جاتے ہوئے، بوڑھے آدمی کو راہگیروں سے علی کا تعارف کرانے کے لیے کئی بار رکنا پڑا۔ اور اس نے بہت فخر محسوس کیا اور سب کو بتایا کہ کس طرح اس کے بیٹے نے تینوں چوروں سے سب کو بچایا تھا۔

اس شام جب باپ بیٹا گھر پہنچے تو علی کی ماں بہت پریشان نظر آئیں کہ علی ان کے شوہر کے کندھے پر بیٹھا ہوا ہے۔

‘کیا ہوگا اگر کوئی اسے دیکھ لے؟’ اس نے اپنے شوہر سے پوچھا۔

لیکن بوڑھا آدمی مسکرایا اور اپنی بیوی کو سمجھایا کہ ان دونوں نے ہوٹل میں  کس مہم جوئی کا تجربہ کیا تھا، اور علی نے کس طرح سب کو بچایا اور چوروں کو ڈرایا۔

‘اپنے بیٹے سے شرمندہ ہونا بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ ہمیں اتنے سالوں تک اسے گھر میں چھپا کر نہیں رکھنا چاہیے تھا۔ ہمیں علی اور ان تمام چیزوں پر فخر کرنا چاہیے جو وہ کرنے کے قابل ہے۔’

علی کی ماں کو واقعی بہت فخر ہوا جب اس نے اپنے بیٹے کی بہادری کی داستان سنی، اور وعدہ کیا کہ وہ اسے کبھی نہیں چھپائے گی یا پھر کبھی شرمندگی محسوس نہیں کرے گی۔

اس دن کے بعد سے، علی انگوٹھے نے ہمیشہ اپنے والدین کے کندھوں پر سفر کیا ہے، وہ جہاں بھی جاتے ہیں، اور اس نے بہت سے کام دیکھے اور کیے ہیں اور بہت سی مہم جوئیاں کی ہیں۔